دور تھی از بسکہ راہ انتظار
تھک کے ہر پائے نظر دکھنے لگا
Printable View
دور تھی از بسکہ راہ انتظار
تھک کے ہر پائے نظر دکھنے لگا
دل میں سو لاکھ چٹکیاں لیں
دیکھا بس ہم نے پیار تیرا
گرچہ مے پینے سے کی توبہ ہے میں نے ساقی
بھول جاتا ہوں ولے تیری مدارات کے وقت
لے کے میں اوڑھوں ، بچھاؤں یا لپیٹوں کیا کروں؟
روکھی پھیکی ایسی سوکھی مہربانی آپ کی
گر نازنیں کے کہنے سے مانا ہو کچھ بُرا
میری طرف کو دیکھئے! میں نازنیں سہی
منظور دوستی جو تمہیں ہے ہر ایک سے
اچھا تو کیا مضائقہ! انشا سے کیں سہی
نہ چھیڑ اے نکہتِ بادِ بہاری راہ لگ اپنی
تجھے اٹھکھیلیاں سوجھی ہیں، ہم بیزار بیٹھے ہیں
تصور عرش پر ہے اور سر ہے پائے ساقی ہر
غرض کچھ اور دھُن میں اس گھڑی میخوار بیٹھے ہیں
تھا ساعتِ فرنگی - دل چپ جو ہو رہا ہے
کیا جانئے کہ کس نے ہے اس کی کل کو توڑا
اپنا دلِ شگفتہ تالاب کا کنول تھا
افسوس تو نے ظالم! ایسے کنول کو توڑا