ہم نے اُس کے نہ اشارے سمجھے
لعل ہاتھوں سے گنوائے کیا کیا
Printable View
ہم نے اُس کے نہ اشارے سمجھے
لعل ہاتھوں سے گنوائے کیا کیا
گُل بہ گُل اُس کے فسانے لکھ کر
درد موسم نے جگائے کیا کیا
لفظ اُس شوخ کے عشووں جیسے
ہم نے شعروں میں سجائے کیا کیا
حرف در حرف شگوفے ہم نے
اُس کے پیکر کے، کھلائے کیا کیا
لُطف کے سارے مناظر ماجدؔ
جو بھی دیکھے تھے دکھائے کیا کیا
حُسن اُس کا بحّدِ نہاں دیکھنا
چاہتی ہے نظر ہر سماں دیکھنا
کیوں نہ ہم اِس ادا پر ہی مرتے رہیں
چھیڑنا اور اُسے بدگماں دیکھنا
کنجِ لب جیسے کھڑکی کھُلے خُلد کی
قامت و قد کو طوبیٰ نشاں دیکھنا
ہائے وُہ ہاتھ جن کی ہے تحریر وُہ
حرف در حرف مخفی جہاں دیکھنا
اُس کے رُخ پرنظر کا نہ ٹِکنا تو پھر
دفعتاً جانبِ آسماں دیکھنا
اُس کے پیکر سے اپنی یہ وابستگی
گُنگ لمحوں کے منہ میں زباں دیکھنا
آنکھ سے تو شراروں کا جھڑنا بجا
لمس تک سے بھی اُٹھتے دھُواں دیکھنا
نازکی اُس کی اور تشنگی شوق کی
نوک پر خار کی پرنیاں دیکھنا
اس بیاں پر نہ معتوب ٹھہرو کہیں
دیکھنا ماجدِ خستہ جاں دیکھنا
دمِ وصال پھلانگی گئیں حدیں کیا کیا
وُہ مہرباں تھا تو کیں ہم نے وحشتیں کیا کیا
ہر اِک کے نفس تھا کوئی موجۂ صبا جیسے
لبوں کے بیچ در آئی تھیں کونپلیں کیا کیا
رُوئیں رُوئیں کو زباں بخش دی تھی اُس نے مگر
وضاحتوں میں تھیں پھر بھی قباحتیں کیا کیا
لہُو میں آگ، شرارے نظر میں تھے اپنی
مچل اُٹھی تھیں بدن میں تمازتیں کیا کیا
یہ تن کہ جیسے چٹخنے کو جامِ مے ہو کوئی
لب و نگاہ میں رقصاں تھیں خواہشیں کیا کیا
ہُوا مباح ہمیں جو بھی کچھ کہ تھا ممنوع
ملیں بہ جنبشِ اَبرُو وُہ مُہلتیں کیا کیا
کس درجہ سبکسار کیا، جذبِ جنوں کو
محفل سے وُہ رخصت کیا اِشارے، مری توبہ
اظہارِ تمّنا ہی کیا تھا مگر اُس پر
انداز عتابی وہ تمہارے، مری توبہ
سُرخی سی لب و چشم میں وہ طیش و حیا کی
بپھرے ہوئے دریا کے کنارے، مری توبہ
اک شور سا رَگ رَگ میں، تمازت دل و جاں میں
آثار قیامت کے وُہ سارے، مری توبہ
جو پیکرِ اُمید تھا دل میں وُہی شق تھا
تھیں شوخ نگاہیں کہ وُہ آرے، مری توبہ
ماجدؔ سرِ اغیار جو گزری وُہی لکھے
کیا رُوپ قلم نے ترے دھارے، مری توبہ
راکھ ہی راکھ کیا دکھاؤں تُجھے
دل میں کچھ ہو تو اب سُجھاؤں تُجھے
ہو میّسر کبھی جو قرب ترا
ہر رگِ جاں سے گنگناؤں تُجھے
شوخیِ لب سے طیش میں لاؤں
اِن نگاہوں سے گدگداؤں تُجھے
تو کہ عنواں ہے چاہتوں کا مری
آ، بہ شاخِ نظر سجاؤں تُجھے
لطف اِن رفعتوں کا لے تو کبھی
آ، دل و چشم میں بساؤں تُجھے
تُو ہے خوشبو تو میں ہوں موجِ صبا
آ، ترا مرتبہ دلاؤں تُجھے
آ، کہ لکھا ہے جو لہومیں مرے
قصّۂ دردِ جاں سناؤں تُجھے
زہر اب ہے، مے ہے، انگبیں ہے
چھب جو بھی ہے اُس کی آتشیں ہے
انوار ہی پھُوٹتے ہیں اُس سے
زرخیز بڑی وُہ سرزمیں ہے
جو ناز کرے اُسے روا ہے
وُہ شوخ ہے، شنگ ہے، حسیں ہے
ہالہ ہے کہ اُس کا ہے گریباں
مطلع ہے کہ اُس کی آستیں ہے
کیا ذکر ہو اُس کے آستاں کا
جو لطف ہے جانئے وہیں ہے
نسبت ہے یہی اب اُس سے اپنی
ہم خاتمِ چشم، وہ نگیں ہے
حرفوں سے جو منعکس ہے ماجدؔ
یہ بھی تو جمالِ ہم نشیں ہے