اک عجب شور مچاتی ہوئی تنہائی کے ساتھ
خود میں دہرائے سمندر کے اشارے ہم نے
Printable View
اک عجب شور مچاتی ہوئی تنہائی کے ساتھ
خود میں دہرائے سمندر کے اشارے ہم نے
بندہ وہ خُدا نہیں تھا لیکن
ہر جسم میں جاں بدل گیا ہے
میرے اور میرے اس خدا کے بیچ
ہے اگر لفظ تو 'محبت' ہے
وصال کا ہو کہ اس کے فراق کا موسم
وہ لذتیں تھیں کہ اندر سے ٹوٹتا تھا میں
اس سے کہنے کو گئے تھے کہ محبت ہے بہت
اس کو دیکھا تو شکستہ دل و محجوب آئے
بے سبب غم میں سلگنا مری عادت ہی سہی
ساز خاموش ہے کیوں شعلہ نوا کیوں چپ ہے
ایک نمرود کی خدائی میں
زندگی تھی عجب فقیر کے ساتھ
آنے والا ہے اب حساب کا دن
ہونے والا ہے کچھ شریر کے ساتھ
بُنیاد بھی میری درو دیوار بھی میرے
تعمیر ہوا میں کہ یہ تعمیر ہوئے سب
وہ روشنی کہ آنکھ اُٹھائی نہیں گئی
کل مجھ سے میرا چاند بہت ہی قریب تھا
اب تو اس طرح مری آنکھوں میں خواب آتے ہیں
جس طرح آئینے چہروں کو ترس جاتے ہیں
یا میرے دیے کی لو بڑھا دے
یا رات کو صُبح سے ملا دے
جب تک ہم مانوس نہیں تھے درد کی ماری دنیا سے
عارض عارض رنگ بہت تھے آنکھوں آنکھوں سحر بہت
بات کسی سے بھی کرو بات کسی کی بھی سنو
بیٹھ کے کاغذوں پہ تم نام وہی لکھا کر و
کتنے کوہِ گراں کاٹے تب صبحِ طرب کی دید ہوئی
اور یہ صبحِ طرب بھی یارو کہتے ہیں بیگانی ہے
اک طبع رنگ رنگ تھی سو نذرِ گُل ہوئی
اب یہ کہ ساتھ اپنے بھی رہتا نہیں ہوں میں
ہرے بھرے مرے خوابوں کو روندنے والو
خدائے زندہ زمیں پر اُتر بھی آتا ہے
یہ میرا عہد یہ میری دُکھی ہوئی آواز
میں آ گیا جو کوئی نوحہ گر بھی آتا ہے
اتنا ہی کہ بس نغمہ سرایانِ جہاں ہیں
ملتا نہیں کچھ اس کے سوا اپنا نشاں اور
اک اصل کے خواب میں کھو جانا
یہ وصل ہوا کہ وصال ہوا
کن ہاتھوں کی تعمیر تھا میں
کن قدموں سے پامال ہوا
انھیں *غرور کہ رکھتے ہیں طاقت و کثرت
ہمیں یہ ناز بہت ہے خدا ہمارے لئے
ہم نے کھلنے نہ دیا بے سر و سامانی کو
کہاں لے جائیں مگر شہر کی ویرانی کو
ایک اکیلا میں چاہوں تو کیسے رہائی ہو
پہلے وہ زنجیر ہوا اور اس کے بعد ہوں میں
کہتے تھے ہم کہ جی نہ سکیں گے ترے بغیر
یہ کیا ہوا کہ تجھ سے محبت نہیں رہی
وصالِ یار سے پہلے محبت
خود اپنی ذات کا اک راستا ہے
لوگ دیتے ہیں جسے پیار کا نام
ایک دھوکہ تھا کہ ہم بھول گئے
ہر شعر ماورائے سخن ہو کچھ اس طرح
اے دل تو لفظ لفظ میں ڈھل آپ کے لیے
کوئی مذہب نہیں ہے خوشبو کا
عام یہ مژدۂ بہار کرو
دوش پر بار شب ِ غم لیے گل کی مانند
کون سمجھے کہ محبت کی زباں ہیں ہم لوگ
کتنے کوہ ِ گراں کاٹے تب صبح ِ طرب کی دید ہوئی
اور یہ صبح طرب بھی یارو کہتے ہیں بیگانی سی ہے
لمحہ لمحہ خواب دکھائے اور سو سو تعبیر کرے
لذت کم آزار بہت ہے جس کا نام جوانی ہے
آپ بھی کیسے شہر میں آ کر شاعر کہلائے ہیں علیم
درد جہاں کم یاب بہت ہے نغموں کی ارزانی ہے
یہ کنارے سے لپیٹی ہوئی موج
کبھی طوفاں بھی اٹھا لائے گی
صورت ِ زلف یہ تلوار سی رات
جیسے دل ہی میں اتر جائے گی
سننے والو اسے بھی سن لینا
صورت ِ زخم بھی ہے اک آواز
آنکھوں میں روشنی بھی ہے ویرانیاں بھی ہیں
اک چاند ساتھ ساتھ ہے اک چاند گہنا گیا
ہزار طرح کے صدمے اٹھانے والے لوگ
نہ جانے کیا ہوا اک آن میں بکھر سے گئے
کچھ نہیں سیکھا ہم نے جنوں سے ہاں مگر اتنا سیکھا ہے
اتنی اس کی عزت کی جو عشق میں جتنا رسوا ہے
میں روتا ہوں کہ زخم ِ آرزو کو
دعا دیتا ہوا موسم نہیں ہے