وہ دکھ آنکھوں میں لے کر جس طرح سے ہنس رہا تھا
میں اپنے بھی غموں پر اس طرح رویا نہیں تھا
Printable View
وہ دکھ آنکھوں میں لے کر جس طرح سے ہنس رہا تھا
میں اپنے بھی غموں پر اس طرح رویا نہیں تھا
کھلے نہ پھول ، نہ پتّے ، اگے کانٹے ہی کانٹے
یہ تو نے راز ایسا بیج تو بویا نہیں تھا
٭٭٭
ہوا یہ کہ جیسے خدا سے ملا تھا
میں کل رات شاید بہت پی گیا تھا
میں جب پی رہا تھا پئے جا رہا تھا
وہ تھا کون جو مجھ کو سمجھا رہا تھا
جو رو رو کے پاگل ہنسے جا رہا تھا
وہ میرا اگر دل نہیں تھا تو کیا تھا
نہ دل کو خبر تھی نہ مجھ کو پتہ تھا
محبت کی تقدیر میں کیا لکھا تھا
وفاؤں کی منزل میرے سامنے تھی
بہت ٹیڑھا میڑھا مگر راستہ تھا
بنا ڈالا شاعر تجھے راز کس نے
بتا دے ہمیں حادثہ کیا ہوا تھا
جہاں کی بھیڑ میں جو بھی ملا ، ملا تنہا
سفر میں ساتھ تھے سب پر ہر ایک تھا تنہا
ستارے لاکھ چلے اس کے ساتھ ساتھ مگر
سحر کے ہوتے ہی پھر آسماں ہوا تنہا
یہ ایک قطرے کی کوشش تھی بس سمندر میں
وہ بادلوں میں اُڑا تو ، مگر گرا تنہا
غموں نے مجھ کو بنا ہی دیا تیرے قابل
خوشی ملی تو میں کترا کے چل دیا تنہا
سبھی تھے اپنے جو بیٹھے تھے گھیر کر مجھ کو
کوئی نہ ساتھ ہوا اٹھ کے جب چلا تنہا
جنونِ راز کی شدت تھی دیکھنے جیسی
وہ ایک آئینہ لے کر بہت ہنسا تنہا
وقت کے ساتھ بدلتے ہیں ہمارے رشتے
بس ضرورت کے زمانے میں ہیں سارے رشتے
کوئی تحفہ بھی ضروری ہے چلانے کو انہیں
چل نہیں پاتے ہیں رشتوں کے سہارے رشتے
آنکھوں میں مری سما کے دیکھو
یہ مشعلیں بھی جلا کے دیکھو
ہے جسم سے جسم کا سخن کیا
یہ بزم کبھی سجا کے دیکھو
پیراک ہوں بحرِ لطفِ جاں کا
ہاں ہاں مجھے آزما کے دیکھو
اُترو بھی لہُو کی دھڑکنوں میں
کیا رنگ ہیں اِس فضا کے دیکھو
مخفی ہے جو خوں کی حِدتّوں میں
وہ حشر کبھی اُٹھا کے دیکھو
بے رنگ ہیں فرطِ خواب سے جو
لمحے وہ کبھی جگا کے دیکھو
بہلاؤ نہ محض گفتگو سے
یہ ربط ذرا بڑھا کے دیکھو
ملہار کے سُر ہیں جس میں پنہاں
وُہ سازِ طرب بجا کے دیکھو
طُرفہ ہے بہت نگاہِ ماجدؔ
یہ شاخ کبھی ہلا کے دیکھو
افق پہ ذہن کے موزوں ہیں یُوں خیال ترے
میانِ قامت و رُخ جُوں سجے ہیں گال ترے
یہ دشتِ دید ترستا ہے کیوں نظر کو تری
بہ قیدِ چشم ہیں کیوں کر ابھی غزال ترے
گمان، برگ و ثمر پر ترا ہی صبح و مسا
خطوطِ حُسن ہویدا ہیں، ڈال ڈال ترے
ہرا بھرا ترے دم سے ہے گُلستانِ خیال
بہ کشتِ یاد فسانے ہیں چھال چھال ترے
اُسی سے رقص میں ہے شاخِ آرزوئے وصال
ہیں جس ہوا سے شگفتہ یہ ماہ و سال ترے
نکلنے دیں گے کہاں حلقۂ ضیا سے مُجھے
سحر نما یہ کرشمے ترے، خیال ترے
کبھی یہ شعر بھی ماجدؔ کے دیکھنا تو سہی
نقوش اِن میں بھی اُترے ہیں خال خال ترے
اک بار تو ایسی بھی جسارت کبھی کر جا
آ ۔۔۔ اور مری تشنگیِ جاں میں اُتر جا
ویرانیِ دل پر کبھی اتنا تو کرم کر
اِس راہگزر سے نمِ موسم سا گُزر جا
طُرفہ ہیں بُہت میرے دل و جاں کی پھواریں
اس بزم میں آ اور مثالِ گُلِ تر جا
دیکھوں میں طُلوعِ رُخِ انور ترا یُوں بھی
آ ۔۔۔ مثل سحر لمس کی شبنم سے نکھر جا
رہنے دے کسی پل تو یہ اندازِ شہابی
مختار ہے تو ۔۔۔ پھر بھی کوئی دم تو ٹھہر جا
پڑتا ہے رہِ شوق میں کچھ اور بھی سہنا
ماجدؔ نہ فقط خدشۂ رسوائی سے ڈر جا
ایک وُہ شخص ہی احوال نہ جانے میرے
ورنہ ازبر ہیں ہوا کو بھی فسانے میرے
مَیں نہ خوشبُو نہ کرن، رنگِ سحر ہوں نہ صبا
کون آتا ہے بھلا ناز اُٹھانے میرے