یہاں آ کر گزر جانا ہے سب کو
کوئی منزل نہیں ، بس راستہ ہے
Printable View
یہاں آ کر گزر جانا ہے سب کو
کوئی منزل نہیں ، بس راستہ ہے
جھکائے سر کھڑا ہے راز لیکن
اسے معلوم ہے وہ بے خطا ہے
خدا نے دیکھ کے تابِ تجسسِ انساں
نظر پہ حد سی لگا دی ہے آسماں کیا ہے
گلا کے چھوڑے گا ہر شئے کو وقت کا تیزاب
سوائے نورِ خدا اور جاوداں کیا ہے
بس ایک غیب کی تلوار یہ خدائی ہے
پھر اس کے سامنے فریاد کیا ، فغاں کیا ہے
غمِ جہاں کا فسانہ بہت طویل ہے دوست
ہماری ایک شبِ غم کی داستاں کیا ہے
بچا ہی کیا ہے تیرے پاس ، بِک گیا سب کچھ
بڑھا لے راز اب خالی ہے یہ دکاں کیا ہے
دل کیا جلا ، کہ داغ وفاؤں کے گھٹ گئے
موسم دھواں دھواں ہوئے آ کر پلٹ گئے
کس زاویے سے آئے میری زندگی میں تم
جتنے تھے میرے سائے وہ سب مجھ سے کٹ گئے
چپ چاپ زندگی بھی کھڑی دیکھتی رہی
ٹکڑے جگر کے سب میرے رشتوں میں بٹ گئے
پتھر غموں کے اتنے تھے اس راہِ زیست میں
جھنجلا کے آدھی راہ سے ہم خود پلٹ گئے
ہر آرزو جو تم سے تھی وابستہ ، جل گئی
اس راکھ سے ہی یادوں کے سائے لپٹ گئے
کب سے پتہ تھا راز کہ رونا ہے ایک دن
کچھ دن کسی کے ساتھ ، چلو اچھے کٹ گئے
اک عالمِ مستی ہے ، یہ عالمِ مئے نوشی
تھوڑی سی سمجھ باقی ، تھوڑی سی ہے بے ہوشی
خوشیوں کو بڑھاتی ہے اور غم کو مٹاتی ہے
میکش کا تو ہوتا ہے ، انجام بلا نوشی
وہ آنکھ سے کہتے ہیں ، ہم دل سے سمجھتے ہیں
نظروں سے جو ہوں باتیں ، الفاظ ہیں خاموشی
جو لوگ نہیں پیتے ، جی کر بھی نہیں جیتے
پر سب کے مقدر میں ہوتی نہیں مدہوشی
گو راز کی فطرت میں ہیں نقص ہزاروں پر
بس ایک مگر کم ہے ، احسان فراموشی
خدایا ، کس لیے دنیا بنی ہے
ترے دوزخ میں شاید کچھ کمی ہے
زمانہ اس پہ دیکھو ہنس رہا ہے
وہ جس نے دوستی میں جان دی ہے
ہیں کتنی منزلیں اس زندگی میں؟
ہر اک منزل ہماری عارضی ہے
تری مرضی سے گر ہِلتا ہے پتّہ
سزا کس جرم کی پھر ہم کو دی ہے
ترے طوفان ہیں کشتی ہماری
ڈُبا اس کو جہاں یہ ڈوبتی ہے
جہاں میں راز سچی بات آخر
بھلا کس نے ، کسی سے ، کب کہی ہے
مرے اندر میرا اک ہم سفر ہے
وہ میری منزلوں سے بے خبر ہے
بھٹک کر لوٹ آتا ہوں ہمیشہ
صدا میں اس کی کچھ ایسا اثر ہے
میں تھک جاتا ہوں وہ رکتا نہیں ہے
مری منزل بھی اس کا رہ گزر ہے
نہ جانے پاؤں میں کتنے ہیں چھالے
مگر پھرتا وہ پھر بھی دربدر ہے
جہاں ، وہ آئینہ خانہ ہے جس میں
کہ ٹوٹا ہر بشر آتا نظر ہے
سفر تو راز کا لمبا بہت تھا
فسانہ پوچھئے تو مختصر ہے
آج کچھ وقتِ شام ہو جائے
بزم کا اہتمام ہو جائے
مئے نہیں میکدے میں گر ساقی
آج غم کا ہی جام ہو جائے
ایسی جلدی ہے کیا چلے جانا
دو گھڑی تو قیام ہو جائے
خوف ہے تم کو گر زمانے کا
آنکھ سے ہی سلام ہو جائے
دیکھ لے گر تمہیں وہ ایک نظر
بادشاہ بھی غلام ہو جائے
سن کے سب کو وہ راز سے بولے
چل ترا بھی کلام ہو جائے
ابھی چہرے کا اس نے بھولپن کھویا نہیں تھا
وہ باشندہ ہی اس دنیا کا تو گویا نہیں تھا
پڑی تھی درد کی وہ جھریاں چہرے پہ گہری
لگا جیسے وہ برسوں سے کبھی سویا نہیں تھا
وہ ڈرتا تھا کہ رونے کی سزا بھی ہو گی شاید
یہی رو رو کے کہتا تھا کہ وہ رویا نہیں تھا
سمجھ آتا کسی کو بارِ غم اس کا تو کیسے
کسی نے لاش کو اپنی کبھی ڈھویا نہیں تھا