رتبے کو ترے سن کر سبک ہو کے ہر غزال
دیوانہ ہو کے دشت ختن سے نکل گیا
Printable View
رتبے کو ترے سن کر سبک ہو کے ہر غزال
دیوانہ ہو کے دشت ختن سے نکل گیا
پھر طفل حیلہ کو کا بہانہ نہ مانیو
آتش وہ اب کی بار تو فن سے نکل گیا
وفا سرشت ہوں، شیوہ ہے دوستی میرا
نہ کی وہ بات جو دشمن کو ناگوار ہوئی
سنا ہے قصۂ مجنوں و وامق و فرہاد
کسی کو عاشق آتش نہ سزا وار ہوئی
کس طرح سے میں دلِ وحشی کا کہنا مانوں
کوئی قائل نہیں دیوانے کی دانائی کا
یہی زنجیر کے نالے سے صدا آتی ہے
قید خانے میں برا حال ہے سودائی کا
بعد شاعر کے ہوا مشہور کلامِ شاعر
شہرہ البتہ کہ ہو مردے کی گویائی کا
بے حجابوں کا مگر شہر ہے اقلیم ِ عدم
دیکھتا ہوں جسے، ہوتا ہے وہ عریاں پیدا
اک گل ایسا نہیں ہووے نہ خزاں جس کی بہار
کون سے وقت ہوا تھا یہ گلستاں پیدا
موجد اس کی ہے یہ روزی ہماری آتش
ہم نہ ہوتے تو نہ ہوتی شب ِ ہجراں پیدا