برباد دل میں جوشِ تمنا کا دم نہ پوچھ
صحرا میں جیسے کوئی بگولے اڑا گیا
Printable View
برباد دل میں جوشِ تمنا کا دم نہ پوچھ
صحرا میں جیسے کوئی بگولے اڑا گیا
کچھ سوچ کر ہمارے گریباں کی وضع پر
عہدِ بہار جاتے ہوئے مسکرا گیا
دل کا ہجومِ غم سے عدم اب یہ حال ہے
دریا پہ جیسے شام کو سکتہ سا چھا گیا
ہاں ہم ہیں وہاں ربط و کشش سے کام چلتا ہے
سمجھنے اور سمجھانے کی گنجائش بہت کم ہے
محبت ہو گئی ہے زندگی سے اتنی بے پایاں
کہ اب گھبرا کے مر جانے کی گنجائش بہت کم ہے
گل و غنچہ کو ہے ان سے عقیدت اس لئے گہری
تیری زلفوں میں مرجھانے کی گنجائش بہت کم ہے
مطلب معاملات کا ، کچھ پا گیا ہوں میں
ہنس کر فریبِ چشمِ کرم کھا گیا ہوں میں
بس انتہا ہے چھوڑئیے بس رہنے دیجئے
خود اپنے اعتماد سے شرما گیا ہوں میں
شاید مجھے نکال کے پچھتا رہے ہوں آپ
محفل میں اس خیال سے پھر آگیا ہوں میں
نکلا تھا میکدے سے کہ اب گھر چلوں عدم
گھبرا کے سوئے میکدہ پھر آگیا ہوں میں
اب شدتِ غم میں مصنوعی آرام سہارا دیتا ہے
یا دوست تسلی دیتے ہیں یا جام سہارا دیتا ہے
wah................kia baat hai....
جتنا سہتا ہوں زمانے کی جفا ہر لمحہ اور
اتنا آتا ہے سمجھ مجھ کو خدا ہر لمحہ اور
ہو رہے ہیں میرے دل کے جتنے ٹکڑے بار بار
اس سے ہوتا جا رہا ہوں آشنا ہر لمحہ اور
کر رہا تھا میں توقع اس سے رحمت کی مگر
وہ بڑھاتا ہی گیا میری سزا ہر لمحہ اور
جیسے جیسے دور ہوتا جا رہا ہوں خود سے اب
تیز آتی جا رہی ہے اک صدا ہر لمحہ اور
زندگی تو ابتداء سے موت کے چنگل میں ہے
کستا جاتا ہے شکنجہ وقت کا ہر لمحہ اور
اب تو اپنی خواہشوں کے سلسلے بھی ختم ہیں
راز ہوتا جا رہا ہوں بے صدا ہر لمحہ اور
اس زمانے کے فریبوں سے بچا کوئی نہ تھا
منزلیں تھیں سامنے پر راستہ کوئی نہ تھا
زندگی میں جو ملے اچھے لگے ، اپنے لگے
میں تو سب کا ہو گیا لیکن میرا کوئی نہ تھا
کس قدر بچ کر چلا میں کتنا آہستہ چلا
مڑ کے جب دیکھا تو اپنا نقشِ پا کوئی نہ تھا
غم سے سب ہارے ہوئے تھے زندگی کی دوڑ میں
سورما بھی تھے مگر جیتا ہوا کوئی نہ تھا
رات کچھ ایسا لگا جیسے سحر سی ہو گئی
اک دیا بس جل رہا تھا بولتا کوئی نہ تھا
راز تھے احباب اپنے دوست اور محبوب بھی
جو نبھاتا ایک رشتہ درد کا ، کوئی نہ تھا
جس کا جی چاہے فقیروں کی دعا لے جائے
کل ہمیں جانے کہاں وقت اٹھا لے جائے
خدمت خلق سے ہستی کو فروزاں کر لے
کیا پتہ کون سی ظلمت میں قضا لے جائے
اس لیے کوئی جہاں سے نہ گیا کچھ لے کر
کیا ہے دنیا میں ، کوئی ساتھ بھی کیا لے جائے
بانٹ دے سب میں یہ خوشیاں جو ملی ہیں تجھ کو
اس سے پہلے کہ کوئی ان کو چرا لے جائے
تو جسے ڈھونڈ رہا ہے وہ تیرے اندر ہے
خود سے ملوانے تجھے کون بھلا لے جائے
آندھیاں تو نہ ہلا پائیں تجھے راز مگر
اب اُڑا کر نہ کہیں بادِ صبا لے جائے
آج محفل اداس سی کیوں ہے
مئے ہے ، ساقی ہے پیاس سی کیوں ہے
کس سے پوچھیں کہ آج یہ دنیا
اس قدر بدحواس سی کیوں ہے
وہ رقیبوں کا ہو گیا پھر بھی
بے سبب ایک آس سی کیوں ہے
ذہن سے دور کی ہے یاد اس کی
پھر بھی وہ آس پاس سی کیوں ہے
کیا ہے رشتہ غموں سے خوشیوں کا
ہر خوشی غم شناس سی کیوں ہے
راز ہنس تو رہے ہو محفل میں
پھر یہ چہرے پہ یاس سی کیوں ہے
فریبِ عقل ہے بس وقت کیا ہے
کہیں جاتا نہیں اور چل رہا ہے
یہ لمحے ، یہ مہینے ، سال ، صدیاں
انہیں گن کر بھی آخر کیا ملا ہے
خزاؤں سے بہاریں کیا الگ ہیں
ذرا بس رنگ پتوں کا ہرا ہے
بدل کر بھی یہاں کیا مستقل ہے
فنا ہونے کا سارا سلسلہ ہے