کچھ بھی ہو گلستاں میں مگر کنجِ چمن سے
ہیں دور بہاروں کے قدم اب کے برس بھی
Printable View
کچھ بھی ہو گلستاں میں مگر کنجِ چمن سے
ہیں دور بہاروں کے قدم اب کے برس بھی
لب و تشنہ و نومید ہیں ہم اب کے برس بھی
اے ٹھہرے ہوئے ابرِ کرم اب کے برس بھی
اس شہرِ تمنا سے فراز آئے ہی کیوں تھے
یہ حال اگر تھا تو ٹھہرتے کوئی دن اور
گو ترکِ تعلق تھا مگر جاں پہ بنی تھی
مرتے جو تجھے یاد نہ کرتے کوئی دن اور
راحت تھی بہت رنج میں ہم غم طلبوں کو
تم اور بگڑتے تو سنورتے کوئی دن اور
ہم نے تجھے دیکھا تو کسی کو بھی نہ دیکھا
اے کاش ترے بعد گزرتے کوئی دن اور
راتوں کو تری یادوں کے خورشید اُبھرتے
آنکھوں میں ستارے سے اترتے کوئی دن اور
اچھا تھا اگر زخم نہ بھرتے کوئی دن اور
اُس کوئے ملامت میں گزرتے کوئی دن اور
اب نہ وہ میں،نہ وہ تُو ہے،نہ وہ ماضی ہے فرازؔ
جیسے دو شخص تمنّا کے سرابوں میں ملیں
آج ہم دار پہ کھینچے گئے جن باتوں پر
کیا عجب کل وہ زمانے کو نصابوں میں ملیں
تُو خدا ہے نہ مرا عشق فرشتوں جیسا
دونوں انساں ہیں تو کیوں اتنے حجابوں میں ملیں
غمِ دنیا بھی غمِ یار میں شامل کر لو
نشہ بڑھتا ہے شرابیں جو شرابوں میں ملیں
ڈھونڈ اُجڑے ہوئے لوگوں میں وفا کے موتی
یہ خزانے تجھے ممکن ہے خرابوں میں ملیں
اب کے ہم بچھڑے تو شاید کبھی خوابوں میں ملیں
جس طرح سوکھے ہوئے پھول کتابوں میں ملیں
ہزار بار کیا ترکِ دوستی کا خیال
مگر فراز پشیمان ہر اک بار ہوئے
یہ انتقام بھی لینا تھا زندگی کو ابھی
جو لوگ دشمنِ جاں تھے وہ غمگسار ہوئے
گلہ اُسی کا کیا جس سے تجھ پہ حرف آیا
وگرنہ یوں تو ستم ہم پہ بے شمار ہوئے
بلا کی رَو تھی ، ندیمانِ آبلہ پا کو
پلٹ کے دیکھنا چاہا کہ خود غبار ہوئے
تجھے اداس کیا خود بھی سوگوار ہوئے
ہم آپ اپنی محبت سے شرمسار ہوئے
کیوں زمانے کو دیں فراز الزام
وہ نہیں ہیں تو بے وفا ہیں ہم
خود کو سنتے ہیں اس طرح جیسے
وقت کی آخری صدا ہیں ہم
راکھ ہیں ہم اگر یہ آگ بجھی
جز غمِ دوست اور کیا ہیں ہم
اس طرح سے ہمیں رقیب ملے
جیسے مدت کے آشنا ہیں ہم
ہم غمِ کارواں میں بیٹھے تھے
لوگ سمجھے شکستہ پا ہیں ہم
تجھ سے مل کر بھی کچھ خفا ہیں ہم
بے مروّت نہیں تو کیا ہیں ہم
دنیا سے بچھڑتے کہ فراز اُن کو بھلاتے
ہر حال میں اپنے لیے پیماں شکنی تھی
یہ جاں جو کڑی دھوپ میں جلتی رہی برسوں
اوروں کے لیے سایۂ دیوار بنی تھی
اب صورتِ دیوار ہیں چپ چاپ کہ تجھ سے
کچھ اور تعلق نہ سہی ہم سخنی تھی
شب سلگتی ہے دو پہر کی طرح
چاند، سورج سے جل بجھا جیسے
مدتوں بعد بھی یہ عالم ہے
آج ہی تُو جدا ہُوا جیسے
اس طرح منزلوں سے ہوں محروم
میں شریکِ سفر نہ تھا جیسے
اب بھی ویسی ہے دوریِ منزل
ساتھ چلتا ہو راستہ جیسے
خود فریبی ہی سہی کیا کیجیے دل کا علاج
تو نظر پھیرے تو ہم سمجھیں کہ پہچانا نہیں
ایک دنیا منتظر ہے اور تیری بزم میں
اس طرح بیٹھے ہیں ہم جیسے کہیں جانا نہیں
جی میں جو آتی ہے کر گزرو کہیں ایسا نہ ہو
کل پشیماں ہو کہ کیوں دل کا کہا مانا نہیں
زندگی پر اس بڑھ کر طنز کیا ہو گا فرازؔؔ
اس کا یہ کہنا کہ تو شاعر ہے دیوانہ نہیں
تو پاس بھی ہو تو دل بیقرار اپنا ہے
کہ ہم کو تیرا نہیں انتظار اپنا ہے
ملے کوئی بھی ترا ذکر چھیڑ دیتے ہیں
کہ جیسے سارا جہاں راز دار اپنا ہے
وہ دور ہو تو بجا ترکِ دوستی کا خیال
وہ سامنے ہو تو کب اختیار اپنا ہے
زمانے بھر کے دکھوں کو لگا لیا دل سے
اس آسرے پہ کہ اک غمگسار اپنا ہے