وہ مے کش تیری آنکھوں کی حکایت سن کے آیا ہے
جسے ہر وقت پیمانے حسیں معلوم ہوتے ہیں
Printable View
وہ مے کش تیری آنکھوں کی حکایت سن کے آیا ہے
جسے ہر وقت پیمانے حسیں معلوم ہوتے ہیں
اداسی بھی عدم احساسِ غم کی ایک دولت ہے
بسا اوقات ویرانے حسیں معلوم ہوتے ہیں
اس کی پائل اگر چھنک جائے
گردشِ آسماں ٹھٹھک جائے
اس کے ہنسنے کی کیفیت ، توبہ!
جیسے بجلی چمک چمک جائے
اس کے سینے کا زیرو بم ، توبہ!
دیوتاؤں کا دل دھڑک جائے
لے اگر جھوم کر وہ انگڑائی
زندگی دار پر اٹک جائے
ایسے بھر پور ہے بدن اس کا
جیسے ساون کا آم پک جائے
ہائے اس مہ جبیں کی یاد عدم
جیسے سینے میں دم اٹک جائے
وہ باتیں تری وہ فسانے ترے
شگفتہ شگفتہ بہانے ترے
فقیروں کی جھولی نہ ہوگی تہی
ہیں بھر پور جب تک خزانے ترے
بس اک داغِ سجدہ مری کائنات
جبینیں تری ، آستانے ترے
ضمیرِ صدف میں کرن کا مقام
انوکھے انوکھے ٹھکانے ترے
عدم بھی ہے تیرا حکایت کدہ
کہاں تک گئے ہیں فسانے ترے
وہ فصلِ گل ، وہ لبِ جوئبار یاد کرو
وہ اختلاط ، وہ قول و قرار یاد کرو
وہ انگ انگ میں طغیانیاں محبت کی
وہ رنگ رنگ کے نقش و نگار یاد کرو
وہ نکہتوں کے جنوں خیز و شعلہ بار بھنور
وہ بلبلوں کی نشیلی پکار یاد کرو
وہ ہمکلامی ء بے اختیار و سادہ روش
وہ ہم نشینی ، دیوانہ وار یاد کرو
خیالِ جنتِ فردا کو آگ میں جھونکو
عدم حلاوتِ آغوشِ یاد یاد کرو
یوں جستجوئے یار میں آنکھوں کے بل گئے
ہم کوئے یار سے بھی کچھ آگے نکل گئے
واقف تھے تیری چشمِ تغافل پسند سے
وہ رنگ جو بہار کے سانچے میں ڈھل گئے
اے شمع! اُن پتنگوں کی تجھ کو کہاں خبر
جو اپنے اشتیاق کی گرمی سے جل گئے
وہ بھی تو زندگی کے ارادوں میں تھے شریک
جو حادثات تیری مروّت سے ٹل گئے
جب بھی وہ مسکرا کے ملے ہم سے اے عدم
دونوں جہان فرطِ رقابت سے جل گئے
زُلفِ برہم سنبھال کر چلئے
راستہ دیکھ بھال کر چلئے
موسمِ گل ہے ، اپنی بانہوں کو
میری بانہوں میں ڈال کر چلئے
کچھ نہ دیں گے تو کیا زیاں ہوگا
حرج کیا ہے سوال کر چلئے
یا دوپٹہ نہ لیجئے سر پر
یا دوپٹہ سنبھال کر چلئے
یار دوزخ میں ہیں مقیم عدم
خُلد سے انتقال کر چلئے
ظلمت کا پھول مَے کے اجالے میں آ گرا
ہستی کا راز میرے پیالے میں آ گرا
مہتاب کا تو ذکر ہی کیا جب جلن ہوئی
سورج بھی زلفِ یار کے ہالے میں آ گرا
لَوٹی ہے عقل سوئے جنوں اس امنگ سے
جیسے گناہ گار شوالے میں آ گرا
ایسے گرا ہے آ کے خرابات میں عدم
جیسے چکور چاند کے ہالے میں آ گرا
جو بھی تیرے فقیر ہوتے ہیں
آدمی بے نظیر ہوتے ہیں
تیری محفل میں بیٹھنے والے
کتنے روشن ضمیر ہوتے ہیں
پھول دامن میں چند رکھ لیجئے
راستے میں فقیر ہوتے ہیں
زندگی کے حسین ترکش میں
کتنے بے رحم تیر ہوتے ہیں
وہ پرندے جو آنکھ رکھتے ہیں
سب سے پہلے اسیر ہوتے ہیں
اے عدم احتیاط لوگوں سے
لوگ منکر نکیر ہوتے ہیں
غم کا غبار آنکھ میں ایسے سما گیا
ہر منظرِ حسیں پہ دھندلکا سا چھا گیا
دل میں مکیں تھا کوئی تو جلتے رہے چراغ
جاتے ہوئے وہ شوخ انہیں بھی بجھا گیا