مجھ سے آگے جانے والی میری ہی تنہائی
اس سے وہ تعمیر ہوا اور اس کے بعد ہوں میں
Printable View
مجھ سے آگے جانے والی میری ہی تنہائی
اس سے وہ تعمیر ہوا اور اس کے بعد ہوں میں
بات بڑے ہی دکھ کی لیکن کتنی سچی اچھی
پہلے آیا میر ہوا اور اس کے بعد ہوں میں
جس کا ماننے والا ہوں وہ خوب ہے جاننے والا
لیکن کیا تشہیر ہوا اور اس کے بعد ہوں میں
تھی جو محبتوں میں نزاکت نہیں رہی
کیا عشق کیجئے کہ روایت نہیں رہی
کہتے تھے ہم کہ جی نہ سکیں گے ترے بغیر
یہ کیا ہوا کہ تجھ سے محبت نہیں رہی
رسوائیوں سے بڑھ تو گیا زندگی کا بوجھ
پر یہ ہوا کہ خود سے ندامت نہیں رہی
کھنچتی تھی جس سے حرف میں اک صورتِ خیال
وہ خواب دیکھتی ہوئی وحشت نہیں رہی
اے موسمِ حیات و زمانہ کے شکوہ سنج
کیا صبر آ گیا کہ شکایت نہیں رہی
کیا نذر دیں جو کوئی نئی آرزو کریں
دل میں تو ٹوٹنے کی بھی ہمت نہیں رہی
جس سمت جایئے وہیں ملتے ہیں اپنے لوگ
اس کی گلی ہی کوئے ملامت نہیں رہی