پھر آج عدم شام سے غمگیں ہے طبیعت
پھر آج سرِ شام میں کچھ سوچ رہا ہوں
Printable View
پھر آج عدم شام سے غمگیں ہے طبیعت
پھر آج سرِ شام میں کچھ سوچ رہا ہوں
خدا کو سجدہ نہ کر ، گل رُخوں کو پیار نہ کر
مسافری میں محبت کے کاروبار نہ کر
سوال کر کے میں خود ہی بہت پشیماں ہوں
جواب دے کے مجھے اور شرمسار نہ کر
کتنی بے ساختہ خطاہوں میں
آپکی رغبت و رضا ہوں میں
میں نے جب ساز چھیڑنا چاہا
خامشی چیخ اٹھی ، صدا ہوں میں
حشر کی صبح تک تو جاگوں گا
رات کا آخری دیا ہوں میں
آپ نے مجھ کو خوب پہچانا
واقعی سخت بے وفا ہوں میں
میں نے سمجھا تھا میں محبت ہوں
میں نے سمجھا تھا مدعا ہوں میں
کاش مجھ کو کوئی بتائے عدم
کس پری وش کی بددعا ہوں میں
مطلب معاملات کا ، کچھ پا گیا ہوں میں
ہنس کر فریبِ چشمِ کرم کھا گیا ہوں میں
بس انتہا ہے چھوڑئیے بس رہنے دیجئے
خود اپنے اعتماد سے شرما گیا ہوں میں
شاید مجھے نکال کے پچھتا رہے ہوں آپ
محفل میں اس خیال سے پھر آگیا ہوں
نکلا تھا میکدے سے کہ اب گھر چلوں عدمؔ
گھبرا کے سوئے میکدہ پھر آگیا ہوں
میکدہ تھا ، چاندنی تھی ، میں نہ تھا
اک مجسم بے خودی تھی ، میں نہ تھا
عشق جب دم توڑتا تھا ، وہ نہ تھے
موت جب سر دھن رہی تھی ، میں نہ تھا
طور پر چھیڑا تھا جس نے آپ کو
وہ میری دیوانگی تھی ، میں نہ تھا
جس نے مہ پاروں کے دل پگھلا دیے
وہ تو میری شاعری تھی ، میں نہ تھا
دیر و کعبہ میں عدم حیرت فروش
دو جہاں کی بد ظنی تھی ، میں نہ تھا
مے نہیں قصرِ زندگانی ہے
روشنی ہے ، ہوا ہے ، پانی ہے
آج دل ڈوبنے سے ڈرتا ہے
دیکھ دریا میں کتنا پانی ہے
جو بھی کرنا ہے کر گزر اے دل
سوچنا مرگِ شادمانی ہے
ہم نے خود مسکرا کے دیکھا ہے
مسکراہٹ بھی نوحہ خوانی ہے
زندگی وہ ! جو ان کے ساتھ گئی
یہ تو میری حیاتِ ثانی ہے
محبت کو کہاں فکرِ زیان و سود رہتا ہے
یہ دروازہ ہمارے شہر میں مسدود رہتا ہے
خرد بھی زندگی کی کہکشاں کا اک ستارہ ہے
مگر یہ وہ ستارہ ہے جو نا مسعود ہوتا ہے
مرے احساس کی تخلیق ہے ، جو کچھ بھی ہے ساقی!
جسے محسوس کرتا ہوں ، وہی موجود ہوتا ہے
شام ہوتی ہے دیا جلتا ہے میخانے کا
کون سا باب ہے یہ زیست کے افسانے کا
عشق کے کام منظم بھی ہیں ، ہنگامی بھی
شمع اک دوسرا کردار ہے افسانے کا
بن گیا فتنۂ محشر کا اثاثہ آخر
غلغلہ میری جوانی کے بہک جانے کا
زندگی راہ نوردی سے عبارت ہے عدم
موت مفہوم ہے رستے سے گزر جانے کا
ستارے بیخود و سرشار تھے ، کل شب جہاں میں تھا
اندھیرے رو کشِ انوار تھے ، کل شب جہاں میں تھا
مسائل زندگی کے جو کبھی سیدھے نہ ہوتے تھے
سراسر سہل اور ہموار تھے ، کل شب جہاں میں تھا
اگرچہ محتسب بھی ان گنت تھے اس شبستان میں
مگر سب میکشوں کے یار تھے ، کل شب جہاں میں تھا
جوانی محوِ آرائش تھی پوری خود نمائی سے
دو عالم آئنہ بردار تھے ، کل شب جہاں میں تھا
گدازِ قربتِ اصنام سے دل پگھلے جاتے تھے
نفس صہبا ، بدن گلنار تھے ، کل شب جہاں میں تھا
گماں ہوتا تھا شاید زندگی پھولوں کا گجرا ہے
گلوں کے اس قدر انبار تھے ، کل شب جہاں میں تھا
عدم مت پوچھ کیا کیفیتیں تھیں ذہن پر طاری
نشاطِ روح کے معمار تھے ، کل شب جہاں میں تھا
تہی بھی ہوں تو پیمانے حسیں معلوم ہوتے ہیں
حقائق سے تو افسانے حسیں معلوم ہوتے ہیں
ملاقاتیں مسلسل ہوں تو دلچسپی نہیں رہتی
بے بے ترتیب یارانے حسیں معلوم ہوتے ہیں
جوانی نام ہے اک خوبصورت موت کا ساقی
بھڑک اٹھیں تو پروانے حسیں معلوم ہوتے ہیں