ابر و باراں کے خدا ، جھومتا بادل نہ سہی
آگ ہی اب سرِ گلزارِ تمنّا برسا
Printable View
ابر و باراں کے خدا ، جھومتا بادل نہ سہی
آگ ہی اب سرِ گلزارِ تمنّا برسا
اپنی قسمت کہ گھٹاؤں میں بھی جلتے ہیں فرازؔؔ
اور جہاں وہ ہیں وہاں ابر کا سایہ برسا
افعی کی طرح ڈسنے لگی موجِ نفس بھی
اے زہرِ غمِ یار بہت ہو چکی بس بھی
یہ حبس تو جلتی ہوئی رُت سے بھی گراں ہے
اے ٹھہرے ہوئے ابرِ کرم اب تو برس بھی
آئینِ خرابات ، معطّل ہے تو کچھ روز
اے رندِ بلا نوش و تہی جام ترس بھی
صیّاد و نگہبانِ چمن پر ہے یہ روشن
آباد ہمیں سے ہے نشیمن بھی قفس بھی
محرومیِ جاوید گنہگار نہ کر دے
بڑھ جاتی ہے کچھ ضبطِ مسلسل سے ہوس بھی
گھر میں کتنا سناٹا ہے باہر کتنا شور
یا دنیا دیوانی ہے یا میرا دل ہے چور
کبھی تو آنکھوں کے گلزاروں میں بھی آ کر ناچ
دل میں کون تجھے دیکھے گا اے جنگل کے مور
یوں پھرتے ہیں گلیوں میں گھبرائے گھبرائے سے
جیسے اس بستی کے سائے بھی ہوں آدم خور
سوچ کی چنگاری بھڑکا کر کیا نادانی کی
اس لمحے سے لے کر اب تک آگ ہیں چاروں اور
چاک گریباں پھرنا کس کو خوش آتا ہے فرازؔؔ
ہم بھی اس کو بھول نہ جائیں دل پہ اگر ہو زور
پھر اسی راہگزر پر شاید
ہم کبھی مل سکیں مگر شاید
جن کے ہم منتظر رہے ان کو
مل گئے اور ہمسفر شاید
جان پہچان سے بھی کیا ہو گا
پھر بھی اے دوست غور کر شاید
اجنبیت کی دھند چھٹ جائے
چمک اٹھے تری نظر شاید
زندگی بھر لہو رلائے گی
یادِ یارانِ بے خبر شاید
جو بھی بچھڑے وہ کب ملے ہیں فرازؔؔ
پھر بھی تو انتظار کر شاید
اب وہ جھونکے کہاں صبا جیسے
آگ ہے شہر کی ہوا جیسے
شب سلگتی ہے دو پہر کی طرح
چاند، سورج سے جل بجھا جیسے
مدتوں بعد بھی یہ عالم ہے
آج ہی تُو جدا ہُوا جیسے
اس طرح منزلوں سے ہوں محروم
میں شریکِ سفر نہ تھا جیسے
اب بھی ویسی ہے دوریِ منزل
ساتھ چلتا ہو راستہ جیسے
اتفاقاََ بھی زندگی میں فرازؔؔ
دوست ملتے نہیں ضیا 1؎ جیسے
اتفاقاََ بھی زندگی میں فرازؔؔ
دوست ملتے نہیں ضیا 1؎ جیسے
٭٭٭
1؎ ضیاء الدین ضیا
مستقل محرومیوں پر بھی دل تو مانا نہیں
لاکھ سمجھایا کہ اس محفل میں اب جانا نہیں
خود فریبی ہی سہی کیا کیجیے دل کا علاج
تو نظر پھیرے تو ہم سمجھیں کہ پہچانا نہیں
ایک دنیا منتظر ہے اور تیری بزم میں
اس طرح بیٹھے ہیں ہم جیسے کہیں جانا نہیں
جی میں جو آتی ہے کر گزرو کہیں ایسا نہ ہو
کل پشیماں ہو کہ کیوں دل کا کہا مانا نہیں
زندگی پر اس بڑھ کر طنز کیا ہو گا فرازؔؔ
اس کا یہ کہنا کہ تو شاعر ہے دیوانہ نہیں
تو پاس بھی ہو تو دل بیقرار اپنا ہے
کہ ہم کو تیرا نہیں انتظار اپنا ہے
ملے کوئی بھی ترا ذکر چھیڑ دیتے ہیں
کہ جیسے سارا جہاں راز دار اپنا ہے
وہ دور ہو تو بجا ترکِ دوستی کا خیال
وہ سامنے ہو تو کب اختیار اپنا ہے
زمانے بھر کے دکھوں کو لگا لیا دل سے
اس آسرے پہ کہ اک غمگسار اپنا ہے
بلا سے جاں کا زیاں ہو اس اعتماد کی خیر
وفا کرے نہ کرے پھر بھی یار اپنا ہے
فرازؔؔ راحتِ جاں بھی وہی ہے کیا کیجیے
وہ جس کے ہاتھ سے سینہ فگار اپنا ہے
جس سے یہ طبیعت بڑی مشکل سے لگی تھی
دیکھا تو وہ تصویر ہر اک دل سے لگی تھی
تنہائی میں روتے ہیں کہ یوں دل کو سکوں ہو
یہ چوٹ کسی صاحبِ محفل سے لگی تھی
اے دل ترے آشوب نے پھر حشر جگایا
بے درد ابھی آنکھ بھی مشکل سے لگی تھی
خلقت کا عجب حال تھا اس کوئے ستم میں
سائے کی طرح دامنِ قاتل سے لگی تھی