صبح کھلنے کی ہو یا شام بکھر جانے کی
ہم نے خوشبو ہی کیا اپنی پریشانی کو
Printable View
صبح کھلنے کی ہو یا شام بکھر جانے کی
ہم نے خوشبو ہی کیا اپنی پریشانی کو
و ہ بھی ہر آن نیا میری محبت بھی نئی
جلوۂ حسن کشش ہے مری حیرانی کو
کوزۂ حرف میں لایا ہوں تمھاری خاطر
روح پر اترے ہوئے ایک عجب پانی کو
پہلا شاعر میر ہوا اور اس کے بعد ہوں میں
پہلے وہ تقدیر ہوا اور اس کے بعد ہوں میں
ایک اکیلا میں چاہوں تو کیسے رہائی ہو
پہلے وہ زنجیر ہوا اور اس کے بعد ہوں میں
اس کا چہرہ دیکھ رہے تھے آئینہ اور میں
پہلے وہ تصویر ہوا اور اس کے بعد ہوں میں
صرف انا ہی لکھواتی ہے ذات کی ہر سچائی
میں پہلے تحریر ہوا اور اس کے بعد ہوں میں
آگے آگے بھاگنے کا ہے ایک سبب یہ بھی
پہلے پیدا تیر ہوا اور اس کے بعد ہوں میں
حسن کو اک شمشیر بناتے میں نے عمر بِتائی
تب قامت شمشیر ہوا اور اس کے بعد ہوں میں
سات سمندر سے گہری ہے شاعر کی گہرائی
کہتے ہیں اک میر ہوا اور اس کے بعد ہوں میں