یہ خلاف ہو گیا آسماں، یہ ہوا زمانہ کی پھر گئی
کہیں گُل کھلے بھی تو بُو نہیں، کہیں حسن ہے تو وفا نہیں
Printable View
یہ خلاف ہو گیا آسماں، یہ ہوا زمانہ کی پھر گئی
کہیں گُل کھلے بھی تو بُو نہیں، کہیں حسن ہے تو وفا نہیں
آرائشِ جمال کو مشاطہ چاہیئے
بے باغبان کے رہ نہیں سکتا چمن درست
شراب پینے کا کیا ذکر، یار بے تیرے
پیا جو پانی بھی ہم نے تو حلق میں اٹکا
کھینچ کر تلوار قاتل نے کیا مجھ کو نہ قتل
شکر ہے گردن تک آتے آتے احساں رہ گیا
نور آسماں ہیں صفحۂ اوّل کے نو لغت
کونین، اک دو ورقہ ہے اپنی کتاب کا
صّیاد گُل عذار دکھاتا ہے سیرِ باغ
بلبل قفس میں یاد کرے آشیانہ کیا
یوں مدّعی حسد سے نہ دے داد تو نہ دے
آتِش غزل یہ تو نے کہی عاشقانہ کیا
دردِ سرِ شام سے اس زلف کے سودے میں رہا
صبح تک مجھ کو شبِ تار نے سونے نہ دیا
رات بھر کیں دلِ بے تاب نے باتیں مجھ سے
رنج و محنت کے گرفتار نے سونے نہ دیا
سیلِ گریہ سے مرے نیند اڑی مردم کی
فکرِ بام و در و دیوار نے سونے نہ دیا