آگہی میں اک خلا موجود ہے
اس کا مطلب ہے خدا موجود ہے
Printable View
آگہی میں اک خلا موجود ہے
اس کا مطلب ہے خدا موجود ہے
ہے یقیناً کچھ مگر واضح نہیں
آپ کی آنکھوں میں کیا موجود ہے
بانکپن میں اور کوئی شے نہیں
سادگی کی انتہا موجود ہے
ہر محبت کی بنا ہے چاشنی
ہر لگن میں مدعا موجود ہے
ہر جگہ ہر شہر ہر اقلیم میں
دھُوم ہے اس کی ، جو نا موجود ہے
جس سے چھپنا چاہتا ہوں میں عدم
وہ ستمگر جا بجا موجود ہے
دوستوں کے نام یاد آنے لگے
تلخ و شیریں جام یاد آنے لگے
وقت جوں جوں رائگاں ہوتا گیا
زندگی کو کام یاد آنے لگے
خوبصورت تہمتیں چبھنے لگیں
دل نشیں الزام یاد آنے لگے
پھر خیال آتے ہی شام ہجر کا
مرمریں اجسام یاد آنے لگے
بھولنا چاہا تھا ا ن کو اے عدم
پھر وہ صبح و شام یاد آنے لگے
غموں کی رات بڑی بے کلی سے گزری ہے
گزر گئی ہے مگر جاں کئی سے گزری ہے
مسیح و خضر کی عمریں نثار ہوں اس پر
وہ زندگی کی گھڑی جو خوشی سے گزری ہے
خزاں تو خیر خزاں ہے ، ہمارے گلشن سے
بہار بھی بڑی آزردگی سے گزری ہے
گزر تو خیر گئی ہے عدم حیات مگر
ستم ظریف بڑی بے رُخی سے گزری ہے
گلوں سے دوستی ہے ، شبنم ستانوں میں رہتا ہوں
بڑے دلچسپ اور شاداب رومانوں میں رہتا ہوں
کنارے پر نہ کیجئے گا زیادہ جستجو میری
کہ میں لہروں کا متوالا ہوں ، طوفانوں میں رہتا ہوں
میں دانستہ حقائق کی ڈگر سے لوٹ آیا ہوں
میں تفریحاً طرب انگیز افسانوں میں رہتا ہوں
پتہ پوچھے کوئی میرا عدم تو اس سے کہہ دینا
میں سچے اور بھولے بھالے انسانوں میں رہتا ہوں
گلوں سے دوستی ہے ، شبنم ستانوں میں رہتا ہوں
بڑے دلچسپ اور شاداب رومانوں میں رہتا ہوں
میں دانستہ حقائق کی ڈگر سے لوٹ آیا ہوں
میں تفریحاً طرب انگیز افسانوں میں رہتا ہوں
پتہ پوچھے کوئی میرا عدم تو اس سے کہہ دینا
میں سچے اور بھولے بھالے انسانوں میں رہتا ہوں
ہم کچھ اس ڈھب سے ترے گھر کا پتا دیتے ہیں
خضر بھی آئے تو گمراہ بنا دیتے ہیں
کس قدر محسن و ہمدرد ہیں احباب مرے
جب بھی میں ہوش میں آتا ہوں ، پلا دیتے ہیں
حادثہ کوئی خدا نے بھی کیا ہے پیدا؟
حادثے تو فقط انسان بنا دیتے ہیں
یاد بچھڑے ہوئے ایام کی یوں آتی ہے
جس طرح دور سے معشوق صدا دیتے ہیں
ہم کو شاہوں سے عدالت کی توقع تو نہیں
آپ کہتے ہیں تو زنجیر ہلا دیتے ہیں
دل اسی زہر کی لذت سے سلامت ہے عدم
ہم حسینوں کی جفاؤں کو دعا دیتے ہیں
کہاں سے چل کے اے ساقی کہاں تک بات پہنچی ہے
تری آنکھوں سے عمرِ جاوداں تک بات پہنچی ہے
مبادا بات بڑھ کر باعثِ تکلیف ہو جائے
وہیں پر ختم کر دیجے جہاں تک بات پہنچی ہے
ابھی تو اس کی آنکھوں نے لیا ہے جائزہ دل کا
ابھی تو ابتدائے داستاں تک بات پہنچی ہے
عدم جھگڑا قیامت تک گیا ہے جرمِ ہستی کا
ذرا سی بات تھی لیکن کہاں تک بات پہنچی ہے
کہرا کے جھوم جھوم کے لا ، مسکرا کے لا
پھولوں کے رس میں چاند کی کرنیں ملا کے لا
کہتے ہیں عمرِ رفتہ کبھی لوٹتی نہیں
جا میکدے سے میری جوانی اٹھا کے لا
دیکھی نہیں ہے تو نے کبھی زندگی کی لہر
اچھا تو جا عدم کی صراحی اٹھا کے لا
خالی ہے ابھی جام ، میں کچھ سوچ رہا ہوں
اے گردشِ ایام! میں کچھ سوچ رہا ہوں
ساقی تجھے اک تھوڑی سی تکلیف تو ہوگی
ساغر کو ذرا تھام ، میں کچھ سوچ رہا ہوں
پہلے بڑی رغبت تھی ترے نام سے مجھ کو
اب سن کے ترا نام میں کچھ سوچ رہا ہوں
ادراک ابھی پورا تعاون نہیں کرتا
دے بادۂ گلفام ، میں کچھ سوچ رہا ہوں
حل کچھ تو نکل آئے گا حالت کی ضد کا
اے کثرتِ آلام! میں کچھ سوچ رہا ہوں