یہی تو آشنا بنتے ہیں آخر
کوئی نا آشنا دیکھا نہ جائے
Printable View
یہی تو آشنا بنتے ہیں آخر
کوئی نا آشنا دیکھا نہ جائے
فرازؔؔ اپنے سوا ہے کون تیرا
تجھے تجھ سے جدا دیکھا نہ جائے
دل بھی بجھا ہو شام کی پرچھائیاں بھی ہوں
مر جائیے جو ایسے میں تنہائیاں بھی ہوں
آنکھوں کی سرخ لہر ہے موجِ سپردگی
یہ کیا ضرور ہے کہ اب انگڑائیاں بھی ہوں
ہر حُسنِ سادہ لوح نہ دل میں اتر سکا
کچھ تو مزاجِ یار میں گہرائیاں بھی ہوں
دنیا کے تذکرے تو طبیعت ہی لے بجھے
بات اس کی ہو تو پھر سخن آرائیاں بھی ہوں
پہلے پہل کا عشق ابھی یاد ہے فرازؔؔ
دل خود یہ چاہتا تھا کہ رسوائیاں بھی ہوں
جب تری یاد کے جگنو چمکے
دیر تک آنکھ میں آنسو چمکے
سخت تاریک ہے دل کی دنیا
ایسے عالم میں اگر تُو چمکے
ہم نے دیکھا سرِ بازارِ وفا
کبھی موتی کبھی آنسو چمکے
شرط ہے شدتِ احساسِ جمال
رنگ تو رنگ ہے خوشبو چمکے
آنکھ مجبورِ تماشا ہے فرازؔؔ
ایک صورت ہے کہ ہر سُو چمکے
پیام آئے ہیں اس یارِ بے وفا کے مجھے
جسے قرار نہ آیا کہیں بھلا کے مجھے
جدائیاں ہوں ایسی کہ عمر بھر نہ ملیں
فریب دو تو ذرا سلسلے بڑھا کے مجھے
نشے سے کم تو نہیں یادِ یار کا عالم
کہ لے اڑا ہے کوئی دوش پر ہوا کے مجھے
میں خود کو بھول چکا تھا مگر جہاں والے
اداس چھوڑ گے آئینہ دکھا کے مجھے
تمہارے بام سے اب کم نہیں ہے رفعتِ دار
جو دیکھنا ہو تو دیکھو ذرا نظر اٹھا کے مجھے
کھنچی ہوئی ہے مرے آنسوؤں میں اک تصویر
فرازؔؔ دیکھ رہا ہے وہ مسکرا کے مجھے
بے نیازِ غمِ پیمانِ وفا ہو جانا
تم بھی اوروں کی طرح مجھ سے جدا ہو جانا
گرچہ اب قرب کا امکاں ہے بہت کم پھر بھی
کہیں مل جائیں تو تصویر نما ہو جانا
صرف منزل کی طلب ہو تو کہاں ممکن ہے
دوسروں کے لیے خود آبلہ پا ہو جانا
خلق کی سنگ زنی میری خطاؤں کا صلہ
تم تو معصوم ہو تم دُور ذرا ہو جانا
اب مرے واسطے تریاق ہے الحاد کا زہر
تم کسی اور پجاری کے خدا ہو جانا
دل میں اب طاقت کہاں خوننابہ افشانی کرے
ورنہ غم وہ زہر ہے پتھر کو بھی پانی کرے
عقل وہ ناصح کہ ہر دم لغزشِ پا کا خیال
دل وہ دیوانہ یہی چاہے کہ نادانی کرے
ہاں مجھے بھی ہو گلہ بے مہریِحالات کا
تجھ کو آزردہ اگر میری پریشانی کرے
یہ تو اک شہرِ جنوں ہے چاک دامانو! یہاں
سب کے سب وحشی ہیں کس کو کون زندانی کرے
موسمِ گل ہے مگر بے رنگ ہے، شاخِ مژہ
کتنا شرمندہ ہمیں آنکھوں کی ویرانی کرے
ہنستے چہروں سے دلوں کے زخم پہچانے گا کون
تجھ سے بڑھ کر ظلم اپنی خندہ پیشانی کرے
ناصحوں کو کون سمجھائے نہ سمجھے گا فرازؔؔ
وہ تو سب کی بات سن لے اور من مانی کرے
بے سر و ساماں تھے لیکن اتنا اندازہ نہ تھا
اِس سے پہلے شہر کے لُٹنے کا آوازہ نہ تھا
ظرفِ دل دیکھا تو آنکھیں کرب سے پتھرا گئیں
خون رونے کی تمنّا کا یہ خمیازہ نہ تھا
آ مرے پہلو میں آ اے رونقِ بزمِ خیال
لذتِ رخسار و لب کا اب تک اندازہ نہ تھا
ہم نے دیکھا ہے خزاں میں بھی تری آمد کے بعد
کونسا گل تھا کہ گلشن میں تر و تازہ نہ تھا
ہم قصیدہ خواں نہیں اُس حسن کے لیکن فرازؔؔ
اتنا کہتے ہیں رہینِ سُرمہ و غازہ نہ تھا
تپتے صحراؤں پہ گرجا سرِ دریا برسا
تھی طلب کس کو مگر ابر کہاں جا برسا
کتنے طوفانوں کی حامل تھی لہو کی ایک بوند
دل میں اک لہر اٹھی آنکھ سے دریا برسا
کوئی غرقاب کوئی مائ بے آب ہُوا
ابرِ بے فیض جو برسا بھی تو کیسا برسا
چڑھتے دریاؤں میں طوفان اٹھانے والے
چند بوندیں ہی سرِ دامنِ صحرا برسا
طنز ہیں سوختہ جانوں پہ گرجتے بادل
یا تو گھنگھور گھٹائیں نہ اٹھا ، یا برسا