وہ بھی کیسی جفائیں کرتا ہے
ہم پہ قرباں ادائیں کرتا ہے
Printable View
وہ بھی کیسی جفائیں کرتا ہے
ہم پہ قرباں ادائیں کرتا ہے
اس کی رحمت کا آسرا لے کر
آدمی سو خطائیں کرتا ہے
کھینچے پھرتا ہے نیم جاں تن کو
دل بھی کسی جفائیں کرتا ہے
رات بھر لوگ جاگتے بھی ہیں
شہر بھی سائیں سائیں کرتا ہے
صبح دم روز ایک فرزانہ
جاگو، جاگو! صدائیں کرتا ہے
نہ کوئی منزل نہ کوئی راہی، نہ راہبر ہے نہ راستہ ہے
جدھر کو جس جس کے جی میں آئی اسی طرف وہ نکل پڑا ہے
بڑا زمانہ ہوا کسی نے محبتوں کے دئیے جلائے
انھی چراغوں کی روشنی نے بھرم کسی کا رکھا ہوا ہے
ابھی تو شاخوں میں زندگی ہے، ابھی تو پھولوں میں تازگی ہے
مگر خزاں اور بادِ صرصر نے ایک ڈر سا لگا دیا ہے
نہ نقشِ پا ہیں نہ بانگِ چنگ و درا کسی نے سنی ہے لیکن
یہ خاک سی کیسی اڑ رہی ہے کہ راستہ سارا اٹ گیا ہے
اک ایک دانے کو ایک دنیا تڑپ رہی ہے سسک رہی ہے
ادھر خدائی کے دعویداروں نے سارا غلہ جلا دیا ہے
مجھے شرابِ طہور کہہ کر وہ زہرِ قاتل پلا رہے ہیں
میں کیا کہوں کن مروتوں نے مری زباں کو جکڑ لیا ہے
مجھے سخن ور نہ کوئی کہنا کہ میں تو تاریخ لکھ رہا ہوں
نہ یہ غزل ہے نہ شاعری ہے یہ آج کے دن کا ماجرا ہے
مرے رفیقوں کی پھول سی وہ نصیحتیں سب ہیں یاد مجھ کو
مگر یہ میرا قلم ہے آسی، کہ لفظ کانٹے اگا رہا ہے
ربابِ دل کے نغمہ ہائے بوالعجب چلے گئے
جو آ گئے تھے شہر میں، وہ بے ادب چلے گئے
میں اپنی دھن میں گائے جا رہا تھا نغمہ ہائے جاں
مجھے نہیں کوئی خبر کہ لوگ کب چلے گئے
سیاہ رات رہ گئی ہے روشنی کے شہر میں
دکھا کے چاند تارے اپنی تاب و تب چلے گئے
زباں کوئی نہ مل سکی ظہورِ اضطراب کو
تمام لفظ چھوڑ کر لرزتے لب، چلے گئے
وہ خود رہِ وفا میں چند گام بھی نہ چل سکے
ہمیں مگر دکھا کے راستے عجب چلے گئے
وہ کج کلہ جو کبھی سنگ بار گزرا تھا
کل اس گلی سے وہی سوگوار گزرا تھا
کوئی چراغ جلا تھا نہ کوئی در وا تھا
سنا ہے رات گئے شہریار گزرا تھا
گہر جب آنکھ سے ٹپکا زمیں میں جذب ہوا
وہ ایک لمحہ بڑا با وقار گزرا تھا
جو تیرے شہر کو گلگوں بہار بخش گیا
قدم قدم بسرِ نوکِ خار گزرا تھا
وہ جس کے چہرے پہ لپٹا ہوا تبسم تھا
چھپائے حسرتیں دل میں ہزار گزرا تھا
جسے میں اپنی صدا کا جواب سمجھا تھا
وہ اک فقیر تھا، کر کے پکار گزرا تھا
ترے بغیر بڑے بے قرار ہیں، آسی
ترا وجود جنہیں ناگوار گزرا تھا
ہماری یاد بھی آئی تو ہو گی
پھر آنکھوں میں نمی چھائی تو ہو گی
مرا نام آیا ہو گا جب زباں پر
تری آواز بھرّائی تو ہو گی
سرِ رَہ دیکھ کر چھینٹے لہو کے
ہماری یاد بھی آئی تو ہو گی
اب دو عالم سے صدائے ساز آتی ہے مجھے
دل کی آہٹ سے تری آواز آتی ہے مجھے
جھاڑ کر گردِ غمِ ہستی کو اڑ جاؤں گا میں
بے خبر! ایسی بھی اک پرواز آتی ہے مجھے
یا سماعت کا بھرم ہے یا کسی نغمے کی گونج
ایک پہچانی ہوئی آواز آتی ہے مجھے
اس کی نازک انگلیوں کو دیکھ کر اکثر عدم
ایک ہلکی سی صدائے ساز آتی ہے مجھے
ایک عنوان کا تجسس ہے کہانی کے لئے
ایک صدمے کی ضرورت ہے جوانی کے لئے
زیست کو ساتھ حوادث کے جواں رہنے دو
کوئی ساحل نہیں بہتے ہوئے پانی کے لئے
اے غمِ زیست نمائش کا تبسم ہی سہی
کوئی تمہید تو ہو اشک فشانی کے لئے
مے کے بارے میں عدم اتنی خبر ہے ہم کو
چیز اچھی ہے طبیعت کی روانی کے لئے
چشمِ ساقی کے اشارات کی باتیں چھیڑو
فصلِ گل میں تو کرامات کی باتیں چھیڑو
کچھ مداوا کرو ماحول کی تاریکی کا
کچھ درخشندہ روایات کی باتیں چھیڑو
نقل موزوں ہو تو وہ اصل میں ڈھل جاتی ہے
نہیں برسات تو برسات کی باتیں چھیڑو
دلکشی ہے بھی کوئی خشک حقائق میں عدم
میں تو کہتا ہوں حکایات کی باتیں چھیڑو