قبائے سرخ وہ اندامِ نازک دوست رکھتا ہے
ملانا خاک میں عاشق کا ہے شغل اُن کے دامن کو
Printable View
قبائے سرخ وہ اندامِ نازک دوست رکھتا ہے
ملانا خاک میں عاشق کا ہے شغل اُن کے دامن کو
دماغ اپنا بھی اے گُلبدن معطّر ہے
صبا ہی کے نہیں حصّے میں آئی بُو تیری
ہُوا کون سا روزِ روشن نہ کالا
کب افسانۂ زلفِ شب گوں نہ نکلا
بہار آئی ہے، نشّہ میں جھومتے ہیں
مریدانِ پیرِ مغاں کیسے کیسے
کسی کی محرم آب رواں کی یاد آئی
حباب کے جو برابر کوئی حباب آیا
زنجیر کا وہ غل نہیں زنداں میں اے جنوں
دیوانہ قید خانہ تن سے نکل گیا
خلوت میں ہاتھ یار کے جانا نہ تھا تمہیں
ارباب انجمن ہوئے آتش ہجل تمام
وفا سرشت ہوں، شیوہ ہے دوستی میرا
نہ کی وہ بات جو دشمن کو ناگوار ہوئی
نہ پوچھ، کان میں کیا کیا کہا ہے ، کس کس نے
پھر ہوں تیری خبر میں کہاں کہاں سنتا
یاد آتی ہے مجھ کو تن بے جاں کی خرابی
آباد مکاں کوئی جو ویرانہ ہوا ہے