Re: Munir Niazi's Collection
ہے میرے گرد کثرتِ شہر جفا پرست
تنہا ہوں اس لیے ہوں میں اتنا انا پرست
صحن بہار گل میں کفِ گل فروش
شامِ وصالِ یار میں دستِ حنا پرست
تھا ابتدائے شوق میں آرامِ جاں بہت
پر ہم تھے اپنی دھن میں بہت انتہا پرست
بامِ بلندِ یار پہ خاموشیاں سی ہیں
اس وقت وہ کہاں ہے وہ یارِ ہوا پرست
گمراہیوں کا شکوہ نہ کر اب تو اے منیر
تو ہی تھا سب سے بڑھ کر یہاں رہنما پرست
٭٭٭
Re: Munir Niazi's Collection
ایک نگر کے نقش بھلا دوں ایک نگر ایجاد کروں
ایک طرف خاموشی کر دوں ایک طرف آباد کروں
منزل شب جب طے کرنی ہے اپنے اکیلے دم سے ہی
کس لیے اس جگہ پہ رک کر دن اپنا برباد کروں
بہت قدیم کا نام ہے کوئی ابر و ہوا کے طوفاں میں
نام جو میں اب بھول چکا ہوں کیسے اس کو یاد کروں
جا کے سنوں آثارِ چمن میں سائیں سائیں شا خوں کی
خالی محل کے برجوں سے دیدارِ برق و باد کروں
شعر منیر لکھوں میں اٹھ کر صحن سحر کے رنگوں میں
یا پھر کامِ نظم جہاں کا شام ڈھلے کے بعد کروں
٭٭٭
Re: Munir Niazi's Collection
خاکِ میداں کی حدتوں میں سفر
جیسے حیرت کی وسعتوں میں سفر
خوب لگتا ہے اس کے ساتھ مجھے
وصل کی شب کی خواہشوں میں سفر
اس نگر میں قیام ایسا ہے
جیسے بے انت پانیوں میں سفر
دیر تک سیر شہر خوباں کی
دور تک دل کے موسموں میں سفر
بیٹھے بیٹھے تھک سے گئے
کر کے دیکھیں گے ان دنوں میں سفر
٭٭٭
Re: Munir Niazi's Collection
نام بے حد تھے مگر ان کا نشاں کوئی نہ تھا
بستیاں ہی بستیاں تھیں پاسباں کوئی نہ تھا
خرم و شاداب چہرے ثابت و سیار دل
اک زمیں ایسی تھی جس کا آسماں کوئی نہ تھا
کیا بلا کی شام تھی صبحوں، شبوں کے درمیاں
اور میں ان منزلوں پر تھا جہاں کوئی نہ تھا
ہر مکاں اک راز تھا اپنے مکینوں کے سبب
رشتہ میرا اور جن کے درمیاں کوئی نہ تھا
تھا وہاں موجود کوئی بام و در کے اس طرف
خامشی تھی اس قدر جیسے وہاں کوئی نہ تھا
کوکتی تھی باسنری چاروں دشاؤں میں منیر
پر نگر میں اس صدا کا راز داں کوئی نہ تھا
٭٭٭
Re: Munir Niazi's Collection
بے چین بہت پھرنا گھبرائے ہوئے رہنا
اک آگ سی جذبوں کی دہکائے ہوئے رہنا
چھلکائے ہوئے چلنا خوشبو لبِ لعلیں کی
اک باغ سا ساتھ مہکائے ہوئے رہنا
اس حسن کا شیوہ ہے جب عشق نظر آئے
پردے میں چلے جانا شرمائے ہوئے رہنا
اک شام سی کر رکھنا کاجل کے کرشمے سے
اک چاند سا آنکھوں میں چمکائے ہوئے رہنا
عادت سی بنا لی ہے تم نے تو منیر اپنی
جس شہر میں بھی رہنا اکتائے ہوئے رہنا
٭٭٭
Re: Munir Niazi's Collection
زندہ رہیں تو کیا جو مر جائیں ہم تو کیا
دنیا سے خامشی سے گزر جائیں ہم تو کیا
ہستی ہی اپنی کیا ہے زمانے کے سامنے
اک خواب ہیں جہاں میں بکھر جائیں تو کیا
اب کون منتظر ہے ہمارے لیے وہاں
شام آ گئی ہے لوٹ کے گھر جائیں ہم تو کیا
دل کی خلش تو ساتھ رہے گی تمام عمر
دریائے غم کے پار اتر جائیں ہم تو کیا
٭٭٭
Re: Munir Niazi's Collection
اور ہیں کتنی منزلیں باقی
جان کتنی ہے جسم میں باقی
زندہ لوگوں کی بود باش میں
مردہ لوگوں کی عادتیں باقی
اس سے ملنا خوابِ ہستی میں
خواب معدوم، حسرتیں باقی
بہہ گئے رنگ و نور کے چشمے
رہ گئی ان کی رنگتیں باقی
جن کے ہونے سے ہم بھی ہیں اے دل
شہر میں ہیں وہ صورتیں باقی
وہ تو آ کے منیر جا بھی چکا
اک مہک سی ہے باغ میں باقی
٭٭٭
Re: Munir Niazi's Collection
یہ کیسا نشہ ہے، میں کس عجب خمار میں ہوں
تو آ کے جا بھی چکا ہے، میں انتظار میں ہوں
مکاں ہے قبر، جسے لوگ خود بناتے ہیں
میں اپنے گھر میں ہوں یا میں کسی مزار میں ہوں
درِ فصیل کھلا، یا پہاڑ سر سے ہٹا
میں اب گری ہوئی گلیوں کے مرگ زار میں ہوں
بس اتنا ہوش ہے مجھ کو اجنبی ہیں سب
رکا ہوا ہوں سفر میں، کسی دیار میں ہوں
میں ہوں بھی اور نہیں بھی، عجیب بات ہے یہ
یہ کیسا جبر ہے میں جس کے اختیار میں ہوں
منیر دیکھ شجر، چاند اور دیواریں
ہوا خزاں کی ہے سر پر، شب بہار میں ہوں
٭٭٭
Re: Munir Niazi's Collection
آ گئی یاد شام ڈھلتے ہی
بجھ گیا دل چراغ جلتے ہی
کھل گئے شہر غم کے دروازے
اک ذرا سی ہوا کے چلتے ہی
کون تھا تو کہ پھر نہ دیکھا تجھے
مٹ گیا خواب آنکھ ملتے ہی
خوف آتا ہے اپنے ہی گھر سے
ماہ شب تاب کے نکلتے ہی
تو بھی جیسے بدل سا جاتا ے
عکسِ دیوار کے بدلتے ہی
خون سا لگ گیا ہاتھوں میں
چڑھ گیا زہر گل مسلتے ہی
٭٭٭
Re: Munir Niazi's Collection
اگا سبزہ در و دیوار پر آہستہ آہستہ
ہوا خالی صداؤں سے نگر آہستہ آہستہ
گھرا بادل خموشی سے خزاں آثار باغوں پر
ہلے ٹھنڈی ہواؤں میں شجر آہستہ آہستہ
بہت ہی سست تھا منظر لہو کے رنگ لانے کا
نشاں آخر ہوا یہ سرخ تر آہستہ آہستہ
چمک زر کی اُسے آخر مکانِ خاک میں لائی
بنایا ناگ نے جسموں میں گھر آہستہ آہستہ
مرے باہر فصیلیں تھیں غبارِ خاک و باراں کی
ملی مجھ کو ترے غم کی خبر آہستہ آہستہ
منیر اس ملک پہ آسیب کا سایہ ہے یہ کیا ہے
کہ حرکت تیز تر ہے اور سفر آہستہ آہستہ
٭٭٭