ewain kal nahi tha....:p
Printable View
ﺳﻨﻮ ﺟﻮ ﺑﮭﻮﮎ ﮨﻮﺗﯽ ﮨﮯ
ﺑﮩﺖ ﺳﻔﺎﮎ ﮨﻮﺗﯽ ﮨﮯ
ﮐﺴﯽ ﻓﺮﻗﮯ ﮐﺴﯽ ﻣﺬﮨﺐ ﺳﮯ
ﺍﺱ ﮐﺎ ﻭﺍﺳﻄﮧ ﮐﯿﺴﺎ
ﺗﮍﭘﺘﯽ ﺁﻧﺖ ﻣﯿﮟ ﺟﺐ ﺑﮭﻮﮎ ﮐﺎ
ﺷﻌﻠﮧ ﺑﮭﮍﮐﺘﺎ ﮨﮯ
ﺗﻮ ﻭﮦ ﺗﮩﺬﯾﺐ ﮐﮯ ﺑﮯ ﺭﻧﮓ ﮐﺎﻏﺬ ﮐﻮ
ﺗﻤﺪﻥ ﮐﯽ ﺳﺒﮭﯽ ﺟﮭﻮﭨﯽ ﺩﻟﯿﻠﻮﮞ ﮐﻮ
ﺟﻼ ﮐﺮ ﺭﺍﮐﮫ ﮐﺮﺗﺎ ﮨﮯ
ﻧﻈﺮ ﺑﮭﻮﮐﯽ ﮨﻮ ﺗﻮ ﭘﮭﺮ
ﭼﻮﺩﮬﻮﯾﮟ ﮐﺎ ﭼﺎﻧﺪ
ﺑﮭﯽ ﺭﻭﭨﯽ ﺳﺎ ﻟﮕﺘﺎ ﮨﮯ
ﺧﻮﺩﯼ ﮐﺎ ﻓﻠﺴﻔﮧ..
ﺟﮭﻮﭨﯽ ﺩﻟﯿﻠﯿﮟ ﺳﺐ ﺷﺮﺍﻓﺖ ﮐﯽ
ﻣﺤﺾ ﺑﮑﻮﺍﺱ ﻟﮕﺘﯽ ﮨﯿﮟ
ﺣﻘﯿﻘﺖ ﻣﯿﮟ ﯾﮩﯽ ﺳﺐ ﺳﮯ
ﺑﮍﺍ ﺳﭻ ﮨﮯﮐﮧ ﯾﮧ
ﺟﻮ ﺑﮭﻮﮎ ﮨﻮﺗﯽ ﮨﮯ..
ﺑﮍﯼ ﺑﺪﺫﺍﺕ ﮨﻮﺗﯽ ﮨﮯ
ﮐﯿﺴﮯ ﮐﺎرﯾﮕﺮ ﮨﯿﮟ ﯾﮧ..!!
ﺁﺱ ﮐﮯ ﺩﺭﺧﺘﻮﮞ ﺳﮯ
ﻟﻔﻆ ﮐﺎﭨﺘﮯ ﮨﯿﮟ..
ﺍﻭﺭﺳﯿﮍﮬﯿﺎﮞ ﺑﻨﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ..!!
ﮐﯿﺴﮯ ﺑﺎ ﮨﻨﺮ ﮨﯿﮟ ﯾﮧ..!!
ﻏﻢ ﮐﮯ ﺑﯿﺞ ﺑﻮﺗﮯ ﮨﯿﮟ..
ﺍﻭﺭ ﺩﻟﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺧﻮﺷﯿﻮﮞ ﮐﯽ ﮐﮭﯿﺘﯿﺎﮞ ﺍُﮔﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ..
ﮐﯿﺴﮯ ﭼﺎﺭﮦ ﮔﺮ ﮨﯿﮟ ﯾﮧ...!!
ﻭﻗﺖ ﮐﮯ ﺳﻤﻨﺪﺭ ﻣﯿﮟ
ﮐﺸﺘﯿﺎﮞ ﺑﻨﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﺁﭖ ﮈﻭﺏ ﺟﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ
ﺟﻮ ﮐﮭﻮ ﭼﮑﮯ ﮨﯿﮟ ﺍُﻧﮩﯿﮟ ﮈﮬﻮﻧﮉﻧﺎ ﺗﻮ ﻣﻤﮑﻦ ﮨﮯ...
ﺟﻮ ﺟﺎ ﭼﮑﮯ ﮨﯿﮟ ﺍُﻧﮩﯿﮟ ﮐﻮﺋﯽ ﮐﺲ ﻃﺮﺡ ﻻﺋﮯ....
ﺑُﺠﮭﺎ ﮐﮯ ﺭﮐﮫ ﺩﮮ ﯾﮧ ﮐﻮﺷﺶ ﺑﮩﺖ ﮨَﻮﺍ ﮐﯽ ﺗﮭﯽ
ﻣﮕﺮ، ﭼﺮﺍﻍ ﻣﯿﮟ ﮐﭽﮫ ﺭﻭﺷﻨﯽ ﺍﻧﺎ ﮐﯽ ﺗﮭﯽ
ﻣِﺮﯼ ﺷِﮑﺴﺖ ﻣﯿﮟ ﮐﯿﺎ ﮐﯿﺎ ﺗﮭﮯ ﻣُﻀﻤَﺮﺍﺕ ﻧﮧ ﭘُﻮﭼﮫ
ﻋﺪُﻭ ﮐﺎ ﮨﺎﺗﮫ ﺗﮭﺎ، ﺍﻭﺭ ﭼﺎﻝ ﺁﺷﻨﺎ ﮐﯽ ﺗﮭﯽ
ﺍﺑﮭﯽ ﺳﮯ ﺗﻢ ﻧﮯ ﺩُﮬﻮﺍﮞ ﺩﮬﺎﺭ ﮐﺮ ﺩﯾﺎ ﻣﺎﺣﻮﻝ
ﺍﺑﮭﯽ ﺗﻮ ﺳﺎﻧﺲ ﮨﯽ ﻟﯿﻨﮯ ﮐﯽ ﺍِﺑﺘﺪﺍ ﮐﯽ تهی
ترکِ محبت کر بیٹھے ہم، ضبط محبت اور بھی ہے
ایک قیامت بیت چکی ہے، ایک قیامت اور بھی ہے
ہم نے اُسی کے درد سے اپنے سانس کا رشتہ جوڑ لیا
ورنہ شہر میں زندہ رہنے کی اِک صورت اور بھی ہے
ڈوبتا سوُرج دیکھ کے خوش ہو رہنا کس کو راس آیا
دن کا دکھ سہہ جانے والو، رات کی وحشت اور بھی ہے
صرف رتوں کے ساتھ بدلتے رہنے پر موقوف نہیں...
اُس میں بچوں جیسی ضِد کرنے کی عادت اور بھی ہے
صدیوں بعد اُسے پھر دیکھا، دل نے پھر محسوس کیا
اور بھی گہری چوٹ لگی ہے، درد میں شدّت اور بھی ہے
میری بھیگتی پلکوں پر جب اُس نے دونوں ہاتھ رکھے
پھر یہ بھید کھُلا اِن اشکوں کی کچھ قیمت اور بھی ہے
اُس کو گنوا کر محسنؔ اُس کے درد کا قرض چکانا ہے
ایک اذّیت ماند پڑی ہے ایک اذّیت اور بھی ہے
ہر موج کے دامن میں بیدار جو دریا ہے
اک ریت کے ذرے میں آباد جو صحرا ہے
کیا اُس کی وضاحت ہے کیا اس کا تقاضا ہے
جو سامنے آتا ہے منظر ہے کہ پردہ ہے
بے انت سوالوں کی زنجیر ہے یہ دنیا
اُس عکس کے سایوں کی تصویر ہے یہ دنیا
جس عکس کے جلوے کو ہر آنکھ ترستی ہے
ہے ایک گھٹا ایسی ، کُھلتی نہ برستی ہے
...
کیوں رنگ نہیں رُکتے ، کیوں بات نہیں چلتی
کیوں چاند نہیں بھُجتا کیوں رات نہیں جلتی
موسم کی صدا سن کر کیوں شاخ لرزتی ہے
کیوں اوس کف ِ گُل پر پل بھر کو ٹھہرتی ہے
کیوں خواب بھٹکتے ہیں کیوں آس بکھرتی ہے
اس ایک تسلسل سے کیوں وقت نہیں تھکتا
بس ایک تحیر میں کیوں عمر گزرتی ہے
کسی کے دکه پر ملال کرنا نہ اس کو آیا نہ مجه کو آیا..
وفاوں کو لازوال کرنا نہ اس کو آیا نہ مجه کو آیا...
جو فاصلے تهے انہیں مٹانا اگرچہ دونوں ہی چاہتے تهے..
مگر تعلق بحال کرنا نہ اس کو آیا نہ مجه کو آیا...
کسی بهی دکه پر صدائیں سن کر نہ وہ ہی رویا نہ میں ہی تڑپا..
کہ روح کو مالامال کرنا نہ اس کو آیا نہ مجه کو آیا...
دعا کے روشن چراغ اپنی ہتهیلی پہ جلائے ہم نے....
خدا سے لیکن سوال کرنا نہ اس کو آیا نہ مجه کو آیا....
اس دل میں سلامت ہے اب تک...
وہ شوخئی لب وہ حرف وفا
وہ نقش قدم وہ عکس حنا..
سو بارجسے چوما ہم نے
سو بار پرستش کی جس کی..
اس دل میں سلامت ہے اب تک..
وہ گرد الم وہ دیدہ نم
ہم جس میں چهپا کر رکهتے تهے..
تصویر بکهرتی یادوں کی
زنجیر پگهلتے وعدوں کی...
پونجی ناکام ارادوں کی
اے تیز ہوا ناراض نہ ہو...
اس دل میں سلامت ہے اب تک..
سامان بچهڑتی ساعت کا...
کچه ٹکڑے گرم دوپہروں کے
کچه ریزے نرم سوالوں کے
کچه در انمول خیالوں کے
اک سچا روپ حقیقت کا...
اک جهوٹا لفظ محبت کا