آدمی کو وقار مل جائے
گر جبیں کو غبار مل جائے
Printable View
آدمی کو وقار مل جائے
گر جبیں کو غبار مل جائے
کس کو پروا رہے مصائب کی
فکر کو گر نکھار مل جائے
آدمیت کا حسن ہے وہ شخص
جس کو ان کا شعار مل جائے
اک تمنا بڑے دنوں سے ہے
لیلئ کوئے یار مل جائے
وہ بڑا خوش نصیب ہے جس کو
لذتِ انتظار مل جائے
اک ذرا سوچئے تو، ہو گا کیا
گر جنوں کو قرار مل جائے
آپ سے رشتے کی صورت اور ہے
اور ہے ملنا محبت اور ہے
میرے اندر تھا جو انساں مر گیا
موت کی اب کیا ضرورت اور ہے
چھا رہے ہیں بے یقینی کے سحاب
آج بھی موسم کی نیت اور ہے
خوف کا ہر سر پہ سورج ہے رکھا
اس سے بڑھ کر کیا قیامت اور ہے
بات سچی تھی زباں پر آ گئی
ورنہ واعظ کی تو عادت اور ہے
رنج ہوتا ہے بچھڑنے پر ضرور
پھر ملیں تو اس میں راحت اور ہے
ہے تجھے خواہش وصالِ یار کی
منتظر رہنے میں لذت اور ہے
اب ستارے آنکھ سے گرتے نہیں
اب دلِ آسی کی حالت اور ہے
میرے گیتوں سے چاند رات گئی
وہ جو بڑھیا تھی، سوت کات گئی
کتنے تارے بنائے آنکھوں نے
آخرِ کار کٹ ہی رات گئی
بن گئی خامشی بھی افسانہ
تیرے گھر تک ہماری بات گئی
آپ سے ایک بات کہنی تھی
آپ آئے تو بھول بات گئی
زندگی ساتھ کب تلک دیتی
وہ تو اک شے تھی بے ثبات، گئی
وہ جو آسی پہ تھی کبھی ان کی
وہ نظر دے کے دل کو مات گئی
ابتر کاٹی ہیں راتیں
سو کر کاٹی ہیں راتیں
ریشہ ریشہ سپنوں کا
بن کر کاٹی ہیں راتیں
بیٹھے بیٹھے آنکھوں میں
اکثر کاٹی ہیں راتیں
سنتے ہیں کہ اس نے بھی
رو کر کاٹی ہیں راتیں
رکھ کر سینے پر ہم نے
پتھر کاٹی ہیں راتیں
شانت پور کے لوگوں نے
ڈر ڈر کاٹی ہیں راتیں
تم نے بھی تو آسی جی
مر مر کاٹی ہیں راتیں
شیخ جی کار و بار کرتے ہیں
اپنے سجدے شمار کرتے ہیں
ہم جنہیں بولنا نہیں آتا
شاعری اختیار کرتے ہیں
مہرباں ہم تری عنایت کا
آج تک انتظار کرتے ہیں
ریگ زاروں میں بیٹھ کر ہم لوگ
آرزوئے بہار کرتے ہیں
چوٹ پر چوٹ کھائے جاتے ہیں
اور پھر اعتبار کرتے ہیں
اہلِ ادراک پر مرے اشعار
راز کچھ آشکار کرتے ہیں
یہ کسی راز داں کا تحفہ ہے
غیر کب ایسے وار کرتے ہیں
مجھ کو حیرت بھی ہے مسرت بھی
وہ مرا انتظار کرتے ہیں
میرے پاس آ کے لوگ تیرا ہی
ذکر کیوں بار بار کرتے ہیں
سوچ کر بات کیجئے صاحب
آپ، اور ہم سے پیار کرتے ہیں
چاند چہروں کی سادگی پہ نہ جا
تیر کرنوں سے وار کرتے ہیں
بات کرنے کا فائدہ؟ سو، ہم
خامشی اختیار کرتے ہیں
دوستوں سے کبھی ملو آسی
وہ گِلے بے شمار کرتے ہیں