منزلیں دُور بھی ہیں منزلیں نزدیک بھی ہیں
اپنے ہی پاؤں میں زنجیر پڑی ہو جیسے
Printable View
منزلیں دُور بھی ہیں منزلیں نزدیک بھی ہیں
اپنے ہی پاؤں میں زنجیر پڑی ہو جیسے
آج دل کھول کہ روئے ہیں تو یوں خوش ہیں فرازؔؔ
چند لمحوں کی یہ راحت بھی بڑی ہو جیسے
کیا ایسے کم سخن سے کوئی گفتگو کرے
جو مستقل سکوت سے دل کو لہو کرے
اب تو ہمیں بھی ترکِ مراسم کا دکھ نہیں
پر دل یہ چاہتا ہے کہ آغاز تُو کرے
تیرے بغیر بھی تو غنیمت ہے زندگی
خود کو گنوا کے کون تری جستجو کرے
اب تو یہ آرزو ہے کہ وہ زخم کھائیے
تا زندگی یہ دل نہ کوئی آرزو کرے
تجھ کو بھلا کے دل ہے وہ شرمندۂ نظر
اب کوئی حادثہ ہی ترے روبرو کرے
چپ چاپ اپنی آگ میں جلتے رہو فرازؔؔ
دنیا تو عرضِ حال سے بے آبرو کرے
ہر ایک بات نہ کیوں زہر سی ہماری لگے
کہ ہم کو دستِ زمانہ سے زخم کاری لگے
اداسیاں ہوں مسلسل تو دل نہیں روتا
کبھی کبھی ہو تو یہ کیفیت بھی پیارے لگے
بظاہر ایک ہی شب ہے فراقِ یار مگر
کوئی گزارنے بیٹھے تو عمر ساری لگے
علاج اس دلِ درد آشنا کا کیا کیجیے
کہ تیر بن کہ جسے حرف غمگساری لگے
ہمارے پاس بھی بیٹھو بس اتنا چاہتے ہیں
ہمارے ساتھ طبیعت اگر تمہاری لگے
فرازؔؔ تیرے جنوں کا خیال ہے ورنہ
یہ کیا ضرور وہ صورت سبھی کو پیارے لگے
سو دوریوں پہ بھی مرے دل سے جدا نہ تھی
تُو میری زندگی تھی مگر بے وفا نہ تھی
دل نے ذرا سے غم کو قیامت بنا دیا
ورنہ وہ آنکھ اتنی زیادہ خفا نہ تھی
یوں دل لرز اُٹھا ہے کسی کو پکار کر
میری صدا بھی جیسے کہ میری صدا نہ تھی
برگِ خزاں جو شاخ سے ٹوٹا وہ خاک تھا
اس جاں سپردگی کے تو قابل ہوا نہ تھی
جگنو کی روشنی سے بھی کیا کیا بھڑک اُٹھی
اس شہر کی فضا کہ چراغ آشنا نہ تھی
مرہونِ آسماں جو رہے اُن کو دیکھ کر
خوش ہوں کہ میرے ہونٹوں پہ کوئی دعا نہ تھی
ہر جسم داغ داغ تھا لیکن فرازؔؔ ہم
بدنام یوں ہوئے کہ بدن پر قبا نہ تھی
جو بھی دکھ یاد نہ تھا یاد آیا
آج کیا جانیے کیا یاد آیا
پھر کوئی ہاتھ ہے دل پر جیسے
پھر ترا عہدِ وفا یاد آیا
جس طرح دھند میں لپٹے ہوئے پھول
ایک اک نقش ترا یاد آیا
ایسی مجبوری کے عالم میں کوئی
یاد آیا بھی تو کیا یاد آیا
اے رفیقو سرِ منزل جا کر
کیا کوئی آبلہ پا یاد آیا
یاد آیا تھا بچھڑنا تیرا
پھر نہیں یاد کہ کیا یاد آیا
جب کوئی زخم بھرا داغ بنا
جب کوئی بھول گیا یاد آیا
یہ محبت بھی ہے کیا روگ فرازؔؔ
جس کو بھولے وہ صدا یاد آیا
زخم کو پھول تو صرصر کو صبا کہتے ہیں
جانے کیا دَور ہے کیا لوگ ہیں کیا کہتے ہیں
کیا قیامت ہے کہ جن کے لئے رُک رُک کے چلے
اب وہی لوگ ہمیں آبلہ پا کہتے ہیں
کوئی بتلاؤ کہ اک عمر کا بچھڑا محبوب
اتفاقاََ کہیں مل جائے تو کیا کہتے ہیں
یہ بھی اندازِ سخن ہے کہ جفا کو تیری
غمزہ و عشوہ و انداز و ادا کہتے ہیں
جب تلک دُور ہے تُو تیری پرستش کر لیں
ہم جسے چھو نہ سکیں اُس کو خدا کہتے ہیں
کیا تعجب ہے کہ ہم اہلِ تمنا کو فرازؔؔ
وہ جو محرومِ تمنا ہیں بُرا کہتے ہیں
گل ہو چراغِ مے تو سزاوارِ سنگ ہیں
مینا سرشت ہم بھی شہیدانِ رنگ ہیں
مطرب کی بے دلی ہے کہ محفل کی بے حسی
کس تیغ سے ہلاکِ نوا ہائے چنگ ہیں؟
دل خلوتِ خیال کی آرائشوں میں گم
آنکھیں نگار خانۂ ہستی پہ دنگ ہیں
تاب و تواں نہیں ہے مگر حوصلے تو دیکھ
شیشہ صفات پھر بھی حریفانِ سنگ ہیں
اے حسنِ سادہ دل تری رسوائیاں نہ ہوں
کچھ لوگ کشتۂ ہوسِ نام و ننگ ہیں