اک نظر دیکھ لیجئے پہلے
بھر نگاہوں کے وار کر لینا
Printable View
اک نظر دیکھ لیجئے پہلے
بھر نگاہوں کے وار کر لینا
ایک مسکان کا فریب تو دے
نفرتیں بھی ہزار کر لینا
کس قدر سادگی سے وہ بولے
ہاں، ذرا انتظار کر لینا
ہائے کتنے فریب دیتا ہے
عادتاً اعتبار کر لینا
اک ذرا دوستوں کو جانے دو
زخم دل کے شمار کر لینا
کتنا مہنگا پڑا ہے آسی جی
عقل پر انحصار کر لینا
کچوکے دوستوں نے تو لگائے
پہ ہم ناداں سمجھ کچھ بھی نہ پائے
مجھے جتنے ملے غم دوستوں کے
وہ میں نے اپنے لفظوں میں سجائے
خدا جانے لگاوٹ تھی کہ کیا تھا
وہ مجھ کو دیکھ کر یوں مسکرائے
وہ اک دن اتفاقاً آ گیا تھا
اور اب جانا بھی چاہے، جا نہ پائے
بھری محفل میں تنہا لگ رہا ہوں
کہ ہر سو اجنبیت کے ہیں سائے
ہم اتنی دور جا پہنچے ہیں یارو
کہ رستہ بھی نہ ہم کو ڈھونڈ پائے
مرا تفکر غبار سوچیں نکھارتا ہے
کہ میری آنکھوں میں سرخ شبنم اتارتا ہے
میں آج خوفِ خدا سے محروم ہو گیا ہوں
کئی خداؤں کا خوف اب مجھ کو مارتا ہے
ڈرا رہا ہے مجھے وہ میرے پڑوسیوں سے
مرے جگر میں جو زہر خنجر اتارتا ہے
مرے محلے میں میرے بھائی جھگڑ رہے ہیں
اُدھر کوئی اپنے ترکشوں کو سنوارتا ہے
حصارِ ظلمت میں کب سے انساں بھٹک رہا ہے
کسی نئے دن کو دورِ حاضر پکارتا ہے
دمِ سرافیل ہے نقیبِ جہانِ نو ہے
وہ ایک جذبہ کہ سر دلوں میں ابھارتا ہے
نوید ہے اک جہانِ نو کی، اسی کے دم سے
’ہماری روحوں میں ارتقا پر سنوارتا ہے‘
نہ وہ مکیں رہے ہیں نہ ہی وہ مکاں رہے
میرا جنوں رہے بھی اگر تو کہاں رہے
ہوتی رہیں حدود میں غیروں کی بارشیں
ہم حسرتوں سے دیکھتے ابرِ رواں رہے
اپنی تکلفات کی ہوتی ہے چاشنی
اچھا ہے کچھ حجاب ابھی درمیاں رہے
مجھ کو مرے عیوب کی دیتے رہیں خبر
یا رب! مجھے نصیب دمِ دوستاں رہے
کتنی قیامتیں ہیں اشارے کی منتظر
دو چار دن بہت ہے جو باقی جہاں رہے
پتوار جب اٹھا لیا، موجوں کا خوف کیا
چاہے سفینہ پار لگے، درمیاں رہے
غم ہزاروں دِلِ حزیں تنہا
بوجھ کتنے ہیں اور زمیں تنہا
بس گئے یار شہر میں جا کر
رہ گئے دشت میں ہمیں تنہا
اپنے پیاروں کو یاد کرتا ہے
آدمی ہو اگر کہیں تنہا
تیری یادوں کا اِک ہجوم بھی ہے
آج کی رات میں نہیں تنہا
وہ کسی بزم میں نہ آئے گا
گوشۂ دل کا وہ مکیں تنہا
کار و بارِ حیات کا حاصل
ایک دولت ہی تو نہیں تنہا
دل نہ ہو گر نماز میں حاضر
ہے عبث سجدۂ جبیں تنہا
میرے ارحم! کبھی تو اِس دل میں
ہو ترا خوف جاگزیں تنہا
ہم سفر کوئی نہ تھا اور چل دئے
اجنبی تھا راستہ اور چل دئے
شدتِ شوقِ سفر مت پوچھئے
ناتواں دل کو لیا اور چل دئے
کس قدر جلدی میں تھے اہلِ جنوں
راستہ پوچھا نہ تھا اور چل دئے
اہلِ محفل کی جبینیں دیکھ کر
خوش رہو، ہم نے کہا، اور چل دئے
عشق پروانوں کا بھی سچا نہیں
شمع کا شعلہ بجھا، اور چل دئے
موت سے آگے بھی ہیں کچھ منزلیں
تھک گئے، سو دم لیا، اور چل دئے
زندگی کا کیا بھروسا جانِ من!
آ گیا امرِ قضا، اور چل دئے