ملے گا اور مِرے سارے زخم بھر دے گا
سُنا تھا راہ میں ایسا شجر بھی آتا ہے
Printable View
ملے گا اور مِرے سارے زخم بھر دے گا
سُنا تھا راہ میں ایسا شجر بھی آتا ہے
یہ میرا عہد یہ میری دُکھی ہوئی آواز
میں آ گیا جو کوئی نوحہ گر بھی آتا ہے
کوئی چُرا کے مجھے کیسے چھُپ سکے کہ علیمؔ
لہو کا رنگ مرے حرف پر بھی آتا ہے
لکھنے ہیں ابھی مرثیہ ہائے دل و جاں اور
کچھ زخم مجھے اے مرے مرہم نظراں اور
اتنا ہی کہ بس نغمہ سرایانِ جہاں ہیں
ملتا نہیں کچھ اس کے سوا اپنا نشاں اور
کھینچے ہے مری طبعِ سخن اپنی ہی جانب
اور گردشِ دوراں ہے کہ دکھلائے سماں اور
کچھ نذر ہوئے وقت کی بے رحم ہوا کے
کچھ خواب ابھی میرے لہو میں ہیں رواں اور
ہر لحظہ میں آزادیِ جاں کا تھا طلب گار
ہر گام پڑی پاؤں میں زنجیرِ گراں اور
کس طرح سے اچھا ہو وہ بیمار کہ جس کو
دُکھ اور ہو، دیتے ہوں دوا چارہ گراں اور
جب اپنا سُر پاتال ہوا
تب وحیِ نفَس انزال ہوا