خوشی کے مارے زمیں پر قدم نہیں پڑتے
جرس سے مژدہ منزل ہے کارواں سنتا
Printable View
خوشی کے مارے زمیں پر قدم نہیں پڑتے
جرس سے مژدہ منزل ہے کارواں سنتا
نالوں سے مرے کون تھا تنگ مرے بعد
کس گھر میں نہیں سجدۂ شکرانہ ہوا ہے
آئینے میں دیکھا ہے کو منہ چاند سا اپنا
خود گم ہے وہ بت، عاشق خود گم سے زیادہ
چلے گا کبک کیا رفتار تیری
یہ انداز قدم پایا تو ہوتا
شام سے ڈھونڈا کیا زنجیر پھانسی کے لئے
صبح تک میں نے خیالِ گیسوئے پیچاں کیا
فرہاد سر کو پھوڑ کے تیشے سے مر گیا
شیریں نے ناپسند مگر بے ستوں کیا
باغ سنسان نہ کر، ان کو پکڑ کر صیاد
بعد مدت ہوئے ہیں مرغ ِ خوش الحاں پیدا
چپ رہو، دور کرو، منہ نہ میرا کھلواؤ
غافلو! زخم ِ زباں کا نہیں مرہم پیدا
نکالے تھے دو چاند اس نے مقابل
وہ شب صبح جنت کا جس پہ گماں تھا
طریقِ عشق میں اے دل عصائے آہ ہے شرط
کہیں چڑھاؤ کسی جا اتار راہ میں ہے