نہ ملنے پر رنجیدہ تھے
اس سے مل کر بھی پچھتائے
Printable View
نہ ملنے پر رنجیدہ تھے
اس سے مل کر بھی پچھتائے
ان زلفوں کی یاد دلائیں
شام کے لمبے لمبے سائے
یہ بھی ہے اظہار کی صورت
ہونٹ ہلیں، آواز نہ آئے
مصلحتوں نے لب سی ڈالے
کوئی کچھ کیسے کہہ پائے
شہر پہ چھایا ہے سناٹا
کیا جانے کب کیا ہو جائے
لوگ قد آور ہو جائیں تو
عنقا ہو جاتے ہیں سائے
آسی اپنی سوچ کو روکو
تعزیروں کے موسم آئے
ایک پھول درجن بھر کانٹے
یار ہمارے تحفے لائے
میں ہی دیوانہ سہی لوگ تو فرزانے ہیں
کیوں حقائق میں ملا دیتے یہ افسانے ہیں
ایک لمحے کو نگہ اور طرف بھٹکی تھی
ورنہ ہم صرف تری دید کے دیوانے ہیں
جس نے دیکھا نہ اسے ہوش رہا تن من کا
تیری آنکھیں ہیں کہ جادو ہیں کہ مے خانے ہیں
دل میں وہ کچھ ہے کہ لفظوں میں ادا ہو نہ سکے
وہ سمندر، تو یہ ٹوٹے ہوئے پیمانے ہیں
ایک وہ لوگ کہ صحراؤں کو رونق بخشیں
ایک ہم ہیں کہ بھرے شہر بھی ویرانے ہیں
وہ بھی دن تھے جو کیا کرتا تھا خود سے باتیں
آج آسی کے بڑے لوگوں سے یارانے ہیں
اس کی صورت تو لگتی ہے کچھ جانی پہچانی سی
لیکن اس کو کیا کہئے، وہ آنکھیں ہیں بیگانی سی
دنیا کے ہنگاموں میں جب یاد کسی کی آتی ہے
جانے کیوں جاں پر چھا جاتی ہے قدرے ویرانی سی
لوگ مشینی دنیا کے، انسان نہیں کل پرزے ہیں
تھل کی ریت، چناب کی موجیں رہ گئی ایک کہانی سی
آج کے دور کی بات کرو، یہ دور بڑا دکھیارا ہے
عارض و لب، گیسو کے سائے، باتیں ہوئیں پرانی سی
آدمیوں کے جنگل میں انسان کوئی مل جائے تو
اس سے مل کر، باتیں کر کے ہوتی ہے حیرانی سی
آسی جانے انجانے میں کیا غلطی کر بیٹھا ہے
اس کے لہجے سے ٹپکے ہے ایک خلش انجانی سی
بات بنانے کے سَو ڈھب ہیں
وہ مجھ سے کچھ تو فرماتا
اپنے غم کی دھیمی لے پر
ہے وہ گیت خوشی کے گاتا
میرا اُس کا غم سانجھا تھا
میں اُس کو کیسے بہلاتا
اُس کی بڑی نوازش ہے ، وہ
مل جاتا ہے آتا جاتا
باتوں باتوں میں ہے آسی
بڑی بڑی باتیں کہہ جاتا
ابھی تو ہاریوں کی بیویاں بِکتی ہیں قرضوں میں
ابھی تک بیٹیوں کی عزتیں بٹتی ہیں ٹکڑوں میں
چلو یارو بیابانوں میں کنجِ عافیت ڈھونڈیں
درندے دندناتے پھر رہے ہیں میرے شہروں میں
زمانے بھر میں اس جیسا تہی داماں کوئی ہو گا؟
کہ جس نے بیچ دی اپنی حمیت چند سکوں میں
ابھی ہے درد کی دولت سے مالا مال دل اپنا
ہزاروں تیر باقی ہیں رفیقوں کی کمانوں میں
بڑا محتاط رَہ کر قصۂ ایام لکھتا ہوں
نہ تیرا ذکر آ جائے کہیں میرے فسانوں میں
لب و عارض، وصال و ہجر کی شیرینیاں عنقا
زمانے بھر کی تلخی بھر گئی ہے میرے لفظوں میں
مسلمانوں کی بستی ہو کہ شہرِ کفر ہو، کچھ ہو
نقیبِ نور، مرغِ حق نوا ہے پچھلی راتوں میں
ہم نے کچھ درد پائے ہیں ایسے
ہوں کسی کے نہ اے خدا ویسے
بجھ گئیں حسرتوں کی شمعیں بھی
آندھیاں چل پڑی ہیں کچھ ایسے
تم سے رونق ہے دل کی دنیا میں
تم مجھے بھول جاؤ گے کیسے
ہم کو اپنی انا نے روک رکھا
ورنہ بِکتے ہیں مفت ہم جیسے
تیرے خم میں نشہ پرایا ہے
یار پیاسے بھلے ہیں اس مے سے
گردشِ خوں کو تیز کرتا ہے
گیت اٹھے جو پیار کی نے سے
ہم کو آتا ہے پیار کر لینا
آزمائش بھی یار کر لینا
پھر کبھی ذکرِ یار کر لینا
شکوۂ روزگار کر لینا