کیا عجب کوئی سزاوارِ وفا بھی نہ رہے
آج کے دور میں اس طور جو بولے، پاگل
Printable View
کیا عجب کوئی سزاوارِ وفا بھی نہ رہے
آج کے دور میں اس طور جو بولے، پاگل
وہ ایاغِ دیدہ طرار تھا، مرا حصہ تشنہ لبی رہی
ترا نام آتشِ زیرِ پا، یہاں گام گام کجی رہی
وہ جو زخم تھا سو مٹا دیا، وہ جو پیار تھا سو بھلا دیا
وہ جو درد تھا سو لٹا دیا، پہ کسک سی ایک بچی رہی
کوئی خوف تھا نہ امنگ تھی، وہ جو اپنے آپ سے جنگ تھی
دلِ مضطرب کی ترنگ تھی، دلِ مضطرب میں لگی رہی
کبھی آہ بن کے ہوا ہوئی، کبھی نالہ بن کے ادا ہوئی
کسے کیا خبر کہ وہ کیا ہوئی، وہ جو بے کلی تھی دبی رہی
وہ قرار تھا کہ فرار تھا، اسے اپنے آپ سے پیار تھا
وہ عجیب سینہ فگار تھا، جسے خود سے بے خبری رہی
یہ چراغِ جاں کا جو دود ہے، سَرِ سَر سپہرِ کبود ہے
یہ جمالِ بود و نبود ہے، یہاں روشنی سی ڈھکی رہی
وہ مثالِ تختۂ کاہ تھا، کئی تتلیوں کی پناہ تھا
وہ کہ شہرِ ہجر کا شاہ تھا، مرے دل پہ اُس کی شہی رہی
جو ہوا، جس طرح بھی ہوا فیصلہ
وقت نے آخرش دے دیا فیصلہ
اسے خوب میرا خیال ہے، کہ وجود جس کا سوال ہے
یہ اسی نظر کا کمال ہے، کہ ہر آنکھ مجھ پہ جمی رہی
چھوڑ! تیری بلا سے، مؤقف مرا
اے گراں گوش منصف! سنا فیصلہ
عقل گویم نگویم میں الجھی رہی
عشق نے کہہ دیا، ہو گیا فیصلہ
جا! تری یاد کو دل بدر کر دیا
تیرے شایاں جو تھا، کر دیا فیصلہ
ہر اک دل میں دردِ جدائی آن بسا ہے
گاؤں میں کوئی بیراگی آن بسا ہے
آنکھوں میں اندیشۂ فردا جھانک رہا ہے
چہروں پر کربِ آگاہی آن بسا ہے
کرچی کرچی ہوتا جاتا ہوں اندر سے
اِس بت خانے میں اک صوفی آن بسا ہے
وقت نے ایک عجب انداز میں کروٹ لی ہے
فردا کی بستی میں ماضی آن بسا ہے
میری اکثر باتیں سچی ہو جاتی ہیں
میرے اندر کوئی جوگی آن بسا ہے
آسی جی خاموشی آپ کی ٹوٹی کیسے؟
گوشۂ جاں میں ہجر کا پنچھی آن بسا ہے؟
مجھے محسوس کرنے والا اک دل چاہئے تھا
ستم پھر اُس کے شایان و مقابل چاہئے تھا
تجھے بھی چاہئے تھی پردہ داری چاہتوں کی
مجھے بھی خود پہ قابو، جان محمِل، چاہئے تھا
غمِ ہجرت اٹھانا ہے کوئی آسان ایسا
یہاں پہلے قدم پر ہی بڑا دل چاہئے تھا
ذرا سی رُت بدلنے پر یہ اتنی آہ و زاری؟
ذرا اک حوصلہ جمِّ عنادل چاہئے تھا
سرِ دیوار لکھے ہیں زمانے آنے والے
کوئی اک صاحبِ ادراکِ کامل چاہئے تھا
سرِ شام ہے جو بجھا بجھا مرا داغِ دل
دمِ صبح پاؤ گے اطلاعِ فراغِ دل
پَرِ کاہ موجِ ہوا پہ ہے جو رَواں دَواں
نگہِ پراں کی کمند ڈال، دماغِ دل
وہ نگاہِ ناز ہے مہرباں، رہے احتیاط
اے وفورِ شوق چھلک نہ جائے ایاغِ دل
شبِ تار بھی، مرا راہبر بھی ہے بے جہت
کوئی لو تو دے ذرا جگمگا اے چراغِ دل
رہیں گل بھی، بادِ صبا بھی، ابرِ بہار بھی
جو نہ خار ہوں تو کمال پائے نہ باغِ دل
کیا کہا؟ وہ مری تلاش میں ہے؟
وہ کسی اور کی تلاش میں ہے!
کوئی دل؟ جو کہ اس کے لائق ہو!
درد کی تازگی تلاش میں ہے
ہو نہ جائے مری سماعت گم
تیری آواز کی تلاش میں ہے
فکر گوشہ نشین ہو بیٹھی
شوقِ آوارگی تلاش میں ہے
کون جانے کہیں ملے، نہ ملے
وہ جو خود بھی مری تلاش میں ہے
اک سکوں سا بڑے دنوں سے ہے
سانحہ کیا کوئی تلاش میں ہے؟
وہ جو ہے خون میں رواں کب سے
درد ہے آہ کی تلاش میں ہے
صبح دم آج پھر صدا آئی
کوئی ہے؟ جو مری تلاش میں ہے
میری پہچان کھو گئی ہے کہیں
میری بے چہرگی تلاش میں ہے
اپنوں نے وہ زخم لگائے
غیروں کے مرہم یاد آئے
آنسو بن کر بہہ جاتے ہیں
جتنے کوئی خواب سجائے