کرنے والی تھیں تار تار یہی
آ کے جن بستیوں میں چاک سلا
Printable View
کرنے والی تھیں تار تار یہی
آ کے جن بستیوں میں چاک سلا
بلبلا اٹھا صبر شدت سے
تب کہیں جا کے اک درد ہلا
ہو گیا ہوں میں اس قدر نازک
سانس لی اور دل کا زخم پھلا
بے چین ہوا مست بول پیا کے لہجے میں
میرا دل نہ جلا مت بول پیا کے لہجے میں
میرا کتنا ہے یقیں اس کی صدا کے شک پر بھی
کچھ خوف خدا مت بول پیا کے لہجے میں
مجھے اس کی خوشبو ہجر کے زخم پہ لگتی ہے
اے باد صبا مت بول پیا کے لہجے میں
میں پہلے ہی برباد ہوں اس دل کے ہاتھوں
مجھے غم نہ لگا مت بول پیا کے لہجے میں
دکھ بول رہا تھا بالکل اس کے لہجے میں
پھر میں نے کہا مت بول پیا کے لہجے میں
اب دعا، بددعا میں فرق کہاں
آہ میں ہی نہیں اثر باقی
اب میری روح میں ہم دونوں
ایک تو میں ہوں، ایک ڈر باقی
ایک بس چھت ہے اس کی یادوں کی
کوئی دیوار ہے نہ در باقی
شہر میں ان گنت مکان تو ہیں
کوئی گھر دار ہے نہ گھر باقی
ہجر کی رات چھوڑ جاتی ہے
نت نئی بات چھوڑ جاتی ہے
عشق چلتا ہے تا ابد لیکن
زندگی ساتھ چھوڑ جاتی ہے
دل بیابانی ساتھ رکھتا ہے
آنکھ برسات چھوڑ جاتی ہے
چاہ کی اک خصوصیت ہے کہ یہ
مستقل مات چھوڑ جاتی ہے
مرحلے اس طرح کے بھی ہیں کہ جب
ذات کو ذات چھوڑ جاتی ہے
ہجر کا کوئی نہ کوئی پہلو
ہر ملاقات چھوڑ جاتی ہے
چپ نہ رہو بے چین مسافر
بیت چلی ہے رین مسافر
اور نہیں تو دل کے بارے
کچھ تو کہیں گے نین مسافر
جنگل میں کوئل کُرلائے
ہرسو گونجیں بین مسافر
تیری آس میں رو دیتی ہیں
شام ڈھلے طرفین مسافر
گرد میں گرد ہوا آخر کو
رستوں کے مابین مسافر
پاؤں سے جانے کون اتارے
چھالوں کی نعلین مسافر
اپنی وابستگیِ نو سے بھی کٹ کر آتے
ہم کو کیا ایسی پڑی تھی کہ پلٹ کر آتے
چھوٹی سے چھوٹی پریشانی بھی یاد آئے گی
ہم کو معلوم نہ تھا ورنہ نمٹ کر آتے
ہم کو یہ کھیل ادھورے نہیں اچھے لگتے
ہم اگر آتے تو پھر بازی الٹ کر آتے
روح کے ساتھ نہ دینے سے یہ خواہش ہی رہی
ہم تیرے مدمقابل کبھی ڈٹ کر آتے
تجھ سے دو طرفہ عداوت تھی بہت بچپن سے
کیسے ممکن تھا تیرے سامنے گھٹ کر آتے
جیسے قیدی کوئی اپنوں سے بچھڑتا ہے کبھی
میرے آنسو میری پلکوں سے لپٹ کر آتے
میں تیری آنکھوں میں گم اور تو میری بات میں گم
اچھے خاصے ہو جاتے ہیں ان حالات میں گم
جس سے بولو اس کے ہونٹوں پر ہو گی اک چپ
جس کو دیکھو وہی ملے گا اپنی ذات میں گم
تُو کیا جانے رہنے والے روز و شب سے دور
صدی صدی کا دن ہے میرا تیری رات میں گم
تیری چاہ کی دھند میں ایسے کھویا میرا من
جیسے کوئی صبح ہو جاتی ہے برسات میں گم
میں پوچھتا ہوں کہ یہ کاروبار کس کا ہے
یہ دل مرا ہے مگر اختیار کس کا ہے
یہ کس کی راہ میں بیٹھے ہوئے ہو فرحت جی
یہ تو مدتوں سے تمھیں انتظار کس کا ہے
تڑپ تڑپ کے یہ جب سرد ہونے لگتا ہے
تو پوچھتے ہیں دل بے قرار کس کا ہے
یہ بات طے ہی نہیں ہوسکی ہے آج تلک
ہمارے دونوں میں آخر فرار کس کا ہے
نہ جانے کس نے میرے منظروں کو دھندلایا
نہ جانے شہر پہ چھایا غبار کس کا ہے
اپنی محبتوں کی خدائی دیا نہ کر
ہر بے طلب کے ہاتھ کمائی دیا نہ کر