وعدوں پہ ترے چھوڑ دیا ہم نے بہلنا
اب خونِ جگر رنگِ حنا ہو کے رہے گا
Printable View
وعدوں پہ ترے چھوڑ دیا ہم نے بہلنا
اب خونِ جگر رنگِ حنا ہو کے رہے گا
لکھنا ہے مجھے نوحۂ برگِ گلِ یابس
’یہ قرضِ محبت ہے ادا ہو کے رہے گا‘
پلکوں پر برسات اٹھائے پھرتا ہے
دل بھی کیا سوغات اٹھائے پھرتا ہے
لکھنا ہے مجھے نوحۂ برگِ گلِ یابس
’یہ قرضِ محبت ہے ادا ہو کے رہے گا‘
ہاتھی کی چنگھاڑ سنائی کیسے دے
پیرِ حرم سکرات اٹھائے پھرتا ہے
جس میں آنکھ اٹھانے کی بھی تاب نہیں
کندھوں پر دن رات اٹھائے پھرتا ہے
جس کا ماس اڑایا چیلوں کوّوں نے
مردہ ہاتھ نبات اٹھائے پھرتا ہے
اب کی بار وہ ہار سے یوں دو چار ہوا
سر پر دونوں ہاتھ اٹھائے پھرتا ہے
میرا دشمن کرتا ہے تشہیر مری
میری اک اک بات اٹھائے پھرتا ہے
چاند ستارے اک مدت سے ماند ہوئے
’جگنو سر پر رات اٹھائے پھرتا ہے‘
خود کو آئینے میں دیکھا میں نے
راز تکوین کا پایا میں نے
کتنے تاروں پہ قیامت ٹوٹی
اپنا دامن جو نچوڑا میں نے
وہ تو اُس شام سرِ شہر پنہ
شہر کا درد لکھا تھا میں نے
رہنما یوں بھی ہے برہم مجھ پر
راستہ اس سے نہ پوچھا میں نے
یوں ہی اک عالمِ مجبوری میں
جبر کو جبر کہا تھا میں نے
لے کے پلکوں سے ستارے ٹانکے
قریۂ جاں کو اجالا میں نے
کسی کو عشق نے کوئے بتاں میں ڈال دیا
کسی کو عقل نے وہم و گماں میں ڈال دیا
فکر بے نطق ملی تھی مجھ کو
اس کو لہجے سے نوازا میں نے
کسی کی دید نے جادو جگا دئے کیا کیا
جمال و حسنِ بہاراں خزاں میں ڈال دیا
خدا کے پیشِ نظر تھی حفاظتِ آدم
زمیں کو لے کے کفِ آسماں میں ڈال دیا
امیر سے کوئی پوچھے تو، کس لئے اس نے
سفر کا خوف دلِ کارواں میں ڈال دیا
چلے تو پیشِ نظر تھی یقین کی جنت
سوادِ رہ نے کوئے بے اماں میں ڈال دیا
ترے خیال نے لفظوں کا روپ کیا دھارا
بلا کا سوز لبِ نغمہ خواں میں ڈال دیا
ہماری فکر کی تاریکیوں کا پرتو ہے
جو دستِ چرخ نے سیارگاں میں ڈال دیا
مرے کہے پہ کہ بہتر ہے آزما لینا
’مجھی کو اس نے کڑے امتحاں میں ڈال دیا‘
غم ہزاروں دلِ حزیں تنہا
بوجھ کتنے ہیں اور زمیں تنہا
بس گئے یار شہر میں جا کر
رہ گئے دشت میں ہمِیں تنہا
تیری یادوں کا اک ہجوم بھی ہے
آج کی رات میں نہیں تنہا
اپنے پیاروں کو یاد کرتا ہے
آدمی ہو اگر کہیں تنہا
وہ کسی بزم میں نہ آئے گا
گوشۂ دل کا وہ مکیں تنہا
دل نہ ہو گر نماز میں حاضر
خام ہے سجدۂجبیں تنہا
کاروبارِ حیات کا حاصل
ایک دولت ہی تو نہیں تنہا
میرے مولا کبھی تو اس دل میں
ہو ترا خوف جا گزیں تنہا
بڑی باریک نظر رکھتے ہیں اچھے پاگل
پاگلو! بات کی تہہ کو نہیں پہنچے؟ پاگل!
اپنے اطوار سے قطعاً نہیں لگتے پاگل
ہم نے دیکھے ہیں ترے شہر میں ایسے پاگل
کبھی تو اپنے ہی افکار سے خوف آتا ہے
کبھی ہم خود کو سمجھ لیتے ہیں جیسے پاگل
زندگی خواب ہے گر، خواب میں سونا کیا ہے
خواب در خواب کی تعبیر سجھائے پاگل
جس کو سوچے تو خِرد خود ہی پریشاں ہو جائے
اُس کے دیوانے کو ہم تو نہیں کہتے پاگل
چپ کرو یار، مجھے ڈر ہے تمہاری باتیں
اور لہجہ نہ کسی اور کو کر دے پاگل
شہر کے لوگ سمجھتے ہیں تجھی کو جھوٹا
اتنا سچ بول گیا ہے ارے پگلے! پاگل!