اپنے دیس کے لوگوں کا کچھ حال عجب ہی دیکھا ہے
سوئیں تو طوفان بھی کم اور جاگ اٹھیں تو لہر بہت
Printable View
اپنے دیس کے لوگوں کا کچھ حال عجب ہی دیکھا ہے
سوئیں تو طوفان بھی کم اور جاگ اٹھیں تو لہر بہت
رات آئی تو گھر گھر وحشی سایوں کی تقسیم ہوئی
دن نکلا تو جبر کی دھوپ میں جلتا ہے یہ شہر بہت
ساری عمر تماشا ٹھہری ہجر و وصال کی راہوں کا
جس سے ہم نے پیار کیا وہ نکلا ہے بے مہر بہت
قید ہی شر ط ہے اگر یہ بھی مر ی سزا کرو
وصل کی قید دو مجھے ہجر سے اب رہا کر و
قید ہی شر ط ہے اگر یہ بھی مر ی سزا کرو
وصل کی قید دو مجھے ہجر سے اب رہا کر و
بات کسی سے بھی کرو بات کسی کی بھی سنو
بیٹھ کے کاغذوں پہ تم نام وہی لکھا کر و
یار ہما را ایلیا ہم سے اٹھا لیا گیا
بیٹھے اب اپنی ذات میں ایلیا ایلیا کر و
دوستو ،خون شہیداں کا اثر تو دیکھو
کاسۂ سر لیے آئ ہے سحر تو دیکھو
درد کی دولت کمیاب میرے پاس بہت
ظرف کی داد تو دو میرا جگر تو دیکھو
منزل شوق گریزاں ہے گریزاں ہی سہی
راہ گم گشتہ مسافر کا سفر تو دیکھو