کہیں سے ڈھونڈ کر آسی کو لاؤ
فضا میں کچھ گرانی آ گئی ہے
Printable View
کہیں سے ڈھونڈ کر آسی کو لاؤ
فضا میں کچھ گرانی آ گئی ہے
تیری پلکوں کے ستاروں میں سمانا چاہوں
اپنے اشکوں کو کسی طور چھپانا چاہوں
تا کوئی حسرتِ تعمیر نہ باقی رہ جائے
آشیاں شانۂ طوفاں پہ بنانا چاہوں
کچھ نہ کچھ ہو تو سہی اپنے لہو کا حاصل
شب کے ماتھے پہ شفق رنگ سجانا چاہوں
شدّتِ ضبط سے بے طرح بکھر جاتا ہوں
نغمۂ درد جو محفل میں سنانا چاہوں
سوچتا ہوں تو ہنسی آتی ہے خود پر یارو
میں بھی کیا شخص ہوں روتوں کو ہنسانا چاہوں
دشتِ حسرت تو بسے گا ہی، اگر مر بھی گئیں
پھر تمناؤں کا اِک شہر بسانا چاہوں
فغانِ نا رسا کچھ اور کہتی ہے
صدا اندر صدا کچھ اور کہتی ہے
ارادوں کی ہوا کچھ اور کہتی ہے
مگر زنجیرِ پا کچھ اور کہتی ہے
فقیہِ شہر کے اپنے حواشی ہیں
’مگر خلقِ خدا کچھ اور کہتی ہے‘
شہرِ یعقوب ہے ویران بڑی مدت سے
ایک یوسف ہے جسے ڈھونڈ کے لانا چاہوں
سنا ہے شہر میں سب امن ہے، ہو گا!
یہ شورش جا بجا کچھ اور کہتی ہے
وہ جس کی مانگ اک بلوے میں اجڑی تھی
بہ اندازِ دعا کچھ اور کہتی ہے
گرانی در پئے پندار تھی اور اب
سرِ چاکِ قبا کچھ اور کہتی ہے
اگرچہ عام سے الفاظ ہیں لیکن
تری طرزِ ادا کچھ اور کہتی ہے
بھری محفل میں تنہا بولتا ہے
وہ اپنے قد سے اونچا بولتا ہے
وہ اپنی ذات کے زنداں کا قیدی
پسِ دیوار تنہا بولتا ہے
یہ ہونا تھا مآلِ گریہ بندی
سرِ مِژگاں ستارا بولتا ہے
مہِ کامل کو چُپ سی لگ گئی ہے
مرے گھر میں اندھیرا بولتا ہے
مرے افکار کی موجیں رواں ہیں
مرے لہجے میں دریا بولتا ہے
سنو، شاید اترنے کو ہے طوفاں
سمندر کا کنارا بولتا ہے
یہ کیا کم ہے کہ میں تنہا نہیں ہوں
یہاں کوئی تو مجھ سا بولتا ہے
پڑ گئی اوس کیسے پھولوں پر
رات محوِ بکا رہی ہو گی
وہ کسی طور بھی نہیں مائل
کوئی میری خطا رہی ہو گی
بات کرتا ہے یوں کہ بات نہ ہو
یہ بھی اس کی ادا رہی ہو گی
موت آساں گزر گئی آسی
میری ماں کی دعا رہی ہو گی
جھلملانے لگے ہیں پھر جگنو
تیرگی تلملا رہی ہو گی
بھیج ہی دوں چراغ اشکوں کے
رات بستی پہ چھا رہی ہو گی
سوچوں کی بھاری زنجیریں بھی اپنی
پلکوں پر لکھی تحریریں بھی اپنی
من پاگل جو ساری رات بناتا ہے
لے جاتا ہے دن تصویریں بھی اپنی
شکوہ ہے کوئی تو اپنی ذات سے ہے
تدبیریں اپنی تقدیریں بھی اپنی
ہم خود اپنے ارمانوں کے قاتل ہیں
ہم پر لگتی ہیں تعزیریں بھی اپنی
ہم نے اپنی قدروں کو پامال کیا
خاک بسر ہیں اب توقیریں بھی اپنی
غیروں کی خلعت سے بڑھ کر سجتی ہیں
اپنے تن پر ہوں گر لیریں بھی اپنی
آسی جی غم کی اک اپنی لذت ہے
درد کی ہوتی ہیں تاثیریں بھی اپنی
اس شہر کا کیا جانئے کیا ہوکے رہے گا
ہر شخص بضد ہے کہ خدا ہو کے رہے گا
شعلہ سا وہ لپکا ہے کہستاں میں مکرر
خاشاک کا فرعون فنا ہو کے رہے گا
آباد بڑی دیر سے ہے شہرِ تمنا
اک روز درِ شہر بھی وا ہو کے رہے گا
اِس شہر پنہ کا ہمیں سایہ ہی بہت ہے
سودائے وطن سر پہ ردا ہو کے رہے گا
پھر دشمنِ ایماں نے نئی چال چلی ہے
کہتا ہے کہ وہ بندہ مرا ہو کے رہے گا