اک میرا وجود سُن رہا ہے
الہام جو رات کی ہوا دے
Printable View
اک میرا وجود سُن رہا ہے
الہام جو رات کی ہوا دے
مجھ سے مرا کوئی ملنے والا
بچھڑا تو نہیں مگر ملا دے
چہرہ مجھے اپنا دیکھنے کو
اب دستِ ہوس میں آئینہ دے
جس شخص نے عمرِ ہجر کاٹی
اس شخص کو ایک رات کیا دے
کیا چیز ہے خواہشِ بدن بھی
ہر بار نیا ہی ذائقہ دے
چھونے میں یہ ڈر کہ مر نہ جاؤں
چھو لوں تو وہ زندگی سِوا دے
دُکھتا ہے بدن کہ پھر ملے وہ
مل جائے تو روح کو دُکھا دے
ہم دیوانوں کی قسمت میں لکھے ہیں یاں قہر بہت
کوچہ کوچہ سنگ بہت اور زنداں زنداں زہر بہت
جب تک ہم مانوس نہیں تھے درد کی ماری دنیا سے
عارض عارض رنگ بہت تھے آنکھوں آنکھوں سحر بہت
ہم تو جہاں والوں کی خاطر جان سے گزرے جاتے ہیں
پھر ستم کیا ہے کہ ہمیں پر تنگ ہوا ہے دہر بہت