بعد اک عمر کی خموشی کے
مصرعے زور دار نکلے ہیں
Printable View
بعد اک عمر کی خموشی کے
مصرعے زور دار نکلے ہیں
ہم تو سمجھے تھے مست ہیں آسی
آپ بھی ہوشیار نکلے ہیں
کوئی کہتا تھا خوش ہیں آسی جی
وہ مگر دل فگار نکلے ہیں
دِن کے اثرات سرِ شب جو نمایاں ہوں گے
وصل کے خواب بھی آنکھوں سے گریزاں ہوں گے
ہاں مری یاد ستائے گی تجھے جانتا ہوں
تیری پلکوں پہ بھی کچھ اشک فروزاں ہوں گے
اے کہ لوہو کو مرے غازہ بنانے والو
یوں چھپانے سے یہ داغ اور نمایاں ہوں گے
وقت کے ہاتھ میں شمشیرِ حساب آئے گی
’نیم بسمل کئی ہوں گے کئی بے جاں ہوں گے‘
وقت کے ہاتھ میں شمشیرِ حساب آئے گی
’نیم بسمل کئی ہوں گے کئی بے جاں ہوں گے‘
گر جنوں طعمۂ منقارِ خِرَد یوں ہی رہا
کوئی فرحاں نہ رہے گا سبھی گریاں ہوں گے
دوستوں نے تیر جب دل میں ترازو کر دئے
ہم نے سب شکوے سپردِ شاخ آہو کر دئے
درد کے دریا میں غوطہ زن ہوا غوّاصِ شوق
موج خود کشتی بنی، گرداب چپو کر دئے
حُسن کی بے اعتنائی کو بس اتنا سا خراج؟
کیا کِیا قرباں اگر دو چار آنسو کر دئے
سایۂ دیوارِ جاناں ظلِ طوبیٰ سے سوا
اُس نے یہ کیا کہہ دیا، الفاظ خوشبو کر دئے
زندگی اک دم حسیں لگنے لگی مجذوب کو
اک نگاہِ ناز نے کیا کیا نہ جادو کر دئے
وقتِ رخصت پیش کرنے کے لئے کچھ بھی نہیں
اشک جتنے تھے ترے آنے پہ جگنو کر دئے
تھا وہ اک یعقوب آسی دفعتاً یاد آ گیا
میری گردن میں حمائل کس نے بازو کر دئے
گلی کوچے لہو سے اٹ گئے ہیں
بس اک جنگل کا رستہ رہ گیا ہے
بڑے تو بند ہو بیٹھے گھروں میں
گلی میں ایک بچہ رہ گیا ہے
ضمیرِ آدمیت سخت جاں تھا
ستم گر ہاتھ ملتا رہ گیا ہے
دمِ ہجرت کہا بچے نے رو کر
مرا ٹوٹا کھلونا رہ گیا ہے
ہوئیں اُن سے زمانے بھر کی باتیں
جو کہنا تھا وہ کہنا رہ گیا ہے
تُو ملے غیر سے شاید یہ گوارا ہو تجھے
میں ملوں غیر سے کیسے میں گوارا کر لوں
تُو اگر مجھ کو مسلمان نہ رہنے دے تو
ماں زمیں! تیری قسم، تجھ سے کنارا کر لوں
اہتمام آپ کے سواگت کا بھی کچھ ہو جائے
ٹھہرئیے، ایک ذرا اشک شرارہ کر لوں
آج پھر مائلِ چشمک ہیں فنا اور بقا
سامنے اپنے وجود اپنا صف آرا کر لوں
ہاں مجھے دیکھ مری ذات میں گم سا ہو کر
میں تری آنکھوں سے اپنا بھی نظارہ کر لوں
مری حیات کی لکھی گئی کتاب عجیب
متن غریب ہے اِس کا تو انتساب عجیب
کسی کے ہِجر نے کانٹے خیال میں بوئے
حصارِ خار میں مہکے مگر گلاب عجیب
ازل کے حبس کدوں میں چلی ہوا تازہ
نگاہِ ناز نے وا کر دئے ہیں باب عجیب
قدم تو کوچۂ جاناں کو اُٹھ گئے از خود
انا کی جان پہ ٹوٹے مگر عذاب عجیب
وفورِ شوق میں آنکھیں سوال ہوتی ہیں
لبوں پہ کانپتے رہتے ہیں اضطراب عجیب
فرازِ طور پہ لفظوں کو افتخار ملا
سوالِ شوخ سے بڑھ کر ملا جواب عجیب
گئے برس بھی یہاں آشتی کا قحط رہا
اور اب کے سال اٹھے خوف کے سحاب عجیب
رگِ حیات کہاں لامکاں کی بات کہاں
جنابِ شیخ نے پیدا کئے حجاب عجیب
غموں پر پھر جوانی آ گئی ہے
’طبیعت میں روانی آ گئی ہے‘
ابھی ’اَرِنِی ‘ بھی کہہ پایا نہ زاہد
صدائے ’لَن تَرَانِی ‘آ گئی ہے
نہ بن پائی کبھی جو بات ہم سے
وہ اب کچھ کچھ بنانی آ گئی ہے
ستارے ٹوٹنے گرنے لگے ہیں
یہ آفت ناگہانی آ گئی ہے
کہاں تک آہ و زاری کیجئے گا
وہ جو اک شے تھی آنی آ گئی ہے
جسے ہم نے چھپایا آپ سے بھی
وہ ہر لب پر کہانی آ گئی ہے