جیسے تجدید تعلق کی بھی رُت ہو کوئی
زخم بھرتے ہیں تو احباب بھی آ جاتے ہیں
Printable View
جیسے تجدید تعلق کی بھی رُت ہو کوئی
زخم بھرتے ہیں تو احباب بھی آ جاتے ہیں
ساقیا ! تو نے تو میخانے کا یہ حال کیا
بادہ کش محتسب شہر کے گن گاتے ہیں
طعنۂ نشہ نہ دو سب کو کہ کچھ سوختہ جاں
شدتِ تشنہ لبی سے بھی بہک جاتے ہیں
ہر کڑی رات کے بعد ایسی قیامت گزری
صبح کا ذکر بھی آئے تو لرز جاتے ہیں
جو اُس نے کیا اُسے صلہ دے
مولا مجھے صبر کی جزا دے
یا میرے دیے کی لو بڑھا دے
یا رات کو صُبح سے ملا دے
سچ ہوں تو مجھے امر بنا دے
جھوٹا ہوں تو نقش سب مٹا دے
یہ قوم عجیب ہو گئی ہے
اس قوم کو خوئے انبیا دے
اُترے گا نہ کوئی آسماں سے
اک آس میں دل مگر صدا دے
بچوں کی طرح یہ لفظ میرے
معبود، انھیں بولنا سکھا دے