شام ہونے کو آئی تو سوچا
آج کرنے کے کام کیا کیا تھے
Printable View
شام ہونے کو آئی تو سوچا
آج کرنے کے کام کیا کیا تھے
جو ستارے بجھا دئے تو نے
گردشِ صبح و شام! کیا کیا تھے!
اے میری آرزوؤں کے صیاد، سوچ لے
دم سے انہی کے تیری ہے بیداد، سوچ لے
تجھ کو نہیں فغاں سے اگر آج واسطہ
کوئی سنے گا تیری نہ فریاد، سوچ لے
تیری نگہ نے بھی نہ وفا کی گواہی دی
باتیں بھی ہیں مرقّع اضداد، سوچ لے
بازو پہ جس کو اپنے بھروسا نہ ہو اسے
ملتی نہیں کہیں سے بھی امداد، سوچ لے
خود نہر کا وجود بھی شیریں جمال ہے
اتنا ہی، میرے دور کا فرہاد سوچ لے
ہمیں اپنی خبر باقی نہیں ہے
کسی کے تن پہ سر باقی نہیں ہے
کہانی کیا سناؤں آدمی کی
وہ توقیرِ بشر باقی نہیں ہے
در و دیوار بھی ہیں، لوگ بھی ہیں
بھری بستی میں گھر باقی نہیں ہے
چلو سوچوں کے جگنو پالتے ہیں
کہ امیدِ سحر باقی نہیں ہے
خبر لو، ساکنانِ رہ گزر کی
کہیں گردِ سفر باقی نہیں ہے
وہی انداز ہیں فطرت کے لیکن
کوئی اہلِ نظر باقی نہیں ہے
خدا کی رحمتیں تو منتظر ہیں
دعاؤں میں اثر باقی نہیں ہے
بادل سوچوں کے، کس سے منسوب کروں
جلتے اندیشے کس سے منسوب کروں
اپنے گرد فصیل بنائی خود میں نے
غم تنہائی کے کس سے منسوب کروں
دور کہیں سے رونے کی آواز آئی
اے دل، یہ صدمے کس سے منسوب کروں
روشنیوں کا قاتل کس کو ٹھہراؤں
قاتل اندھیرے کس سے منسوب کروں
راتیں تو اکثر آنکھوں میں کٹتی ہیں
ان دیکھے سپنے کس سے منسوب کروں
کرچی کرچی ہونے کا دکھ اپنی جگہ
پتھر جو برسے، کس سے منسوب کروں
میری زباں سے پھوٹے ہیں، سو میرے ہیں
زہریلے کانٹے کس سے منسوب کروں
منافقت نے جلال چہروں پہ لکھ دیا ہے
وفا نے حزن و ملال چہروں پہ لکھ دیا ہے
اسی لئے تو میں کہہ رہا تھا کہ کچھ نہ کہنا
صدا نے اندر کا حال چہروں پہ لکھ دیا ہے
خلا میں کھوئی، خموش، خستہ خمار نظریں
کسی نے میرا خیال چہروں پہ لکھ دیا ہے
یقین و امید و بیم و خوف و گماں نے مل کے
جواب جیسا سوال چہروں پہ لکھ دیا ہے
ہوا کچھ ایسا کہ وسعتِ قلب کی کمی نے
منافرت کا ابال چہروں پہ لکھ دیا ہے
بے قراریِ جاں، جو تو نہ رہی
میں وہ گل ہوں کہ جس میں بو نہ رہی
ہو گیا بے نیازِ سینہ دل
جامے کو حاجتِ رفو نہ رہی
بجھ گئے شوق کے شرارے بھی
برقِ ناوک بھی تند خو نہ رہی
نا امیدی سی نا امیدی ہے
آرزو کی بھی آرزو نہ رہی
تو نہ ملتا، نہ تھی کچھ ایسی بات
دکھ تو یہ ہے کہ جستجو نہ رہی
وائے بے سمت قافلوں کا سفر
رہگزر کی بھی آبرو نہ رہی
اس کی سرمستئ نظر کے طفیل
حاجتِ ساغر و سبو نہ رہی
دشت میں وہ سکوں ملا آسی
کچھ تمنائے کاخ و کو نہ رہی
اپنے دشمن ہزار نکلے ہیں
ہاں مگر، با وقار نکلے ہیں
ہم بھی کیا بادہ خوار ہو جائیں
شیخ تو بادہ خوار نکلے ہیں
گھر کا رستہ نہ مل سکا ہم کو
گھر سے جو ایک بار نکلے ہیں
چاند بن چاندنی کہاں ہو گی
گو ستارے ہزار نکلے ہیں
خونِ دل دے کے جن کو سینچا تھا
نخل سب خاردار نکلے ہیں
بند کوچے کی دوسری جانب
راستے بے شمار نکلے ہیں