دیکھا مجھے تو طبع رواں ہو گئی میری
وہ مُسکرا دیا تو میں شاعر ادیب تھا
Printable View
دیکھا مجھے تو طبع رواں ہو گئی میری
وہ مُسکرا دیا تو میں شاعر ادیب تھا
رکھتا نہ کیوں میں رُوح و بدن اُس کے سامنے
وہ یُوں بھی تھا طبیب وہ یُوں بھی طبیب تھا
ہر سلسلہ تھا اُس کا خُدا سے ملا ہوا
چُپ ہو کہ لب کُشا ہوا بلا کا خطیب تھا
موجِ نشاط و سیلِ غمِ جاں تھے ایک ساتھ
گلشن میں نغمہ سنج عجب عندلیب تھا
میں بھی رہا ہوں خلوتِ جاناں میں ایک شام
یہ خواب ہے یا واقعی میں خوش نصیب تھا
حرفِ دُعا و دستِ سخاوت کے باب میں
خود میرا تجربہ ہے وہ بے حد نجیب تھا
دیکھا ہے اُس خلوت و جلوت میں بار ہا
وہ آدمی بہت ہی عجیب و غریب تھا
لکّھو تمام عمر مگر پھر بھی تم علیم
اُس کو دِکھا نہ پاؤ وہ ایسا حبیب تھا
اب تو اس طرح مری آنکھوں میں خواب آتے ہیں
جس طرح آئینے چہروں کو ترس جاتے ہیں
احتیاط اہل محبت کہ اسی شہر میں لوگ
گل بدست آتے ہیں اور پایہ رسن جاتے ہیں