زبان کون سی مشغول ذکر خیر نہیں
کہاں کہاں نہیں میں تیری داستاں سنتا
Printable View
زبان کون سی مشغول ذکر خیر نہیں
کہاں کہاں نہیں میں تیری داستاں سنتا
اس عالم ایجاد میں گردش سے فلک کے
کیا کیا نہیں ہونے کا کیا کیا نہ ہوا ہے
صوفی جو سنے نالہ موزوں کو ہمارے
حالت ہو مغنی کے ترنم سے زیادہ
رخ بے داغ دکھلایا تو ہوتا
گل و لالہ کو شرمایا تو ہوتا
قامتِ موزوں تصوّر میں قیامت ہو گیا
چشم کی گردش نے کارِ فتنۂ دوراں کیا
جامے سے جسم کے بھی میں دیوانہ تنگ ہوں
اب کی بہار میں اسے نذر ِ جنوں کیا
دل کے آئینے میں کر جوہر ِ پنہاں پیدا
در و دیوار سے ہو صورت ِ جاناں پیدا
شبہ ہوتا ہے صدف کا مجھے ہر غنچے پر
کہیں موتی نہ کریں قطرہ ِ شبنم پیدا
مبارک شب قدر سے بھی وہ شب تھی
سمر تک مرد مشتری کا قرآن تھا
شباب تک نہیں پہونچا ہے عالمِ طفلی
ہنوز حسنِ جوانیِ یار راہ میں ہے