ایک زمانہ گزرا سورج نکلا تھا
مشرق سے اب اندھی صبحیں اٹھتی ہیں
Printable View
ایک زمانہ گزرا سورج نکلا تھا
مشرق سے اب اندھی صبحیں اٹھتی ہیں
غیر مقابل ہوں تو ہم بھی لڑ جائیں
ہم پر اپنوں کی تلواریں اٹھتی ہیں
لو آسی جی، پیار کے سوتے خشک ہوئے
پریم پریت کی ساری رسمیں اٹھتی ہیں
رات، اداسی، چاند ستمگر خاموشی
نیند سے بوجھل دیوار و در، خاموشی
سناٹے کا خوف، سسکتی آوازیں
سب آوازوں کا پس منظر خاموشی
خواب جزیرہ ہولے ہولے ڈوب گیا
اوڑھ چکا بے رحم سمندر خاموشی
میں نے کتنے ہونٹوں کو آوازیں دیں
لیکن میری ذات کے اندر خاموشی
آنسو، تارا، جگنو، شعلہ، بے تابی
سوچ سمندر کے ساحل پر خاموشی
بستر کانٹے جلتی آنکھیں آخرِ شب
مرتے ہیں پلکوں پر اختر، خاموشی
آسی کو کب کچھ کہنا راس آیا ہے
اپنا لی اس نے تنگ آ کر خاموشی
جب سر پھوٹا بات کھلی، پتھر تو پتھر رہتا ہے
بات نہ تھی جھٹلانے کی، پتھر تو پتھر رہتا ہے
دیوانے ہیں خود اصنام بنا کر پوجا کرتے ہیں
صورت ہو چاہے کیسی، پتھر تو پتھر رہتا ہے
پھول سے بچوں کو ہاتھوں میں سنگ اٹھائے دیکھا تو
اک بوڑھے نے خوب کہی، پتھر تو پتھر رہتا ہے
ہم نے انا کے بت کو توڑا بھی پر اس کو کیا کہئے
ٹکڑے ٹکڑے ہو کر بھی پتھر تو پتھر رہتا ہے
ایک زمانہ اس کے ساتھ گزارا سو مدہوشی میں
سپنا ٹوٹا، بات کھلی، پتھر تو پتھر رہتا ہے
اس میں خون نہیں دوڑے گا، یہ رگ ہے دکھلاوے کی
مان بھی جاؤ آسی جی! پتھر تو پتھر رہتا ہے
بوڑھی سوچیں ملیں مجھ کو عزمِ جواں ڈھوندتے ڈھونڈتے
سر لئے پھر رہا ہوں میں سنگِ گراں ڈھوندتے ڈھونڈتے
کیا خبر کیسی کیسی بہشتیں نظر میں بسا لائے تھے
مر گئے لوگ شہرِ بلا میں اماں ڈھوندتے ڈھونڈتے
میرے جذبوں کے بازو بھی لگتا ہے، جیسے کہ، شل ہو گئے
سرد لاشوں میں ٹھٹھری ہوئی بجلیاں ڈھوندتے ڈھونڈتے
یوں خیالوں کی تصویر قرطاس پر کیسے بن پائے گی
لفظ کھو جائیں گے فن کی باریکیاں ڈھوندتے ڈھونڈتے
ہم سا بے خانماں ہو کسی رنج میں مبتلا کس لئے
اپنا گھر ہی نہ تھا، تھک گئیں آندھیاں ڈھوندتے ڈھونڈتے
لو، کسی کوئے بے نام میں جا کے وہ بے خبر کھو گیا
روزناموں میں چھپتی ہوئی سرخیاں ڈھوندتے ڈھونڈتے
آدمی کیا ہے، یہ جان لینا تو آسی بڑی بات ہے
سوچ پتھرا گئی رشتۂ جسم و جاں ڈھوندتے ڈھونڈتے
جانے چلی ہے کیسی ہوا سارے شہر میں
سوچیں ہوئیں سروں سے جدا سارے شہر میں
میری ہر ایک عرض ہے نا معتبر یہاں
اس کا ہر ایک حکم روا سارے شہر میں
سرگوشیاں ہیں اور جھکے سر ہیں، خوف ہے
سہمی ہوئی ہے خلقِ خدا سارے شہر میں
بدلی مری نگاہ کہ چہرے بدل گئے
کوئی بھی معتبر نہ رہا سارے شہر میں
پندار، قیصری پہ جو ضرب اک لگی تو پھر
کندھوں پہ کوئی سر نہ رہا سارے شہر میں
خاموش ہو گئے ہیں مرے سارے ہم نوا
زندہ ہے ایک میری صدا سارے شہر میں
ابھی نظر کے بچھائے ہوئے سراب میں ہوں
سفر نصیب، مگر منزلوں کے خواب میں ہوں
بسیط قلزمِ ہستی سہی مگر میں تو
انا کی قید میں ہوں، ذات کے حباب میں ہوں
ترے دلائل و منطق پہ گنگ فرزانے
میں ایک شاعرِ دیوانہ کس حساب میں ہوں
فقیہِ شہر! مرا اصل مسئلہ یہ ہے
کسی سوال میں شامل نہ میں جواب میں ہوں
سروں کی خیر مناؤ، دراز قد لوگو!
وہ سنگ ہوں کہ نہاں سرمئی سحاب میں ہوں
پڑا جو دستِ ستم گر، تو خون اگلے گا
مثالِ خار چھپا پردۂ گلاب میں ہوں
خدائے عرش، مرے حال پر کرم فرما
نماز پڑھ کے بھی الجھا ہوا ثواب میں ہوں
تیرگی میں سجھائی کیا دے گا
روشنی کے پیام کیا کیا تھے
میں اسے دیکھتا تھا، وہ مجھ کو
خامشی میں کلام کیا کیا تھے
لوگ پہچانتے نہیں اب تو
آپ تھے تو سلام کیا کیا تھے
شہر میں ہم اداس رہتے ہیں
دشت میں شاد کام کیا کیا تھے