تیرے پیچھے ہے جو قضا کی طرح
کب تلک جنگ ایسے تیر کے ساتھ
Printable View
تیرے پیچھے ہے جو قضا کی طرح
کب تلک جنگ ایسے تیر کے ساتھ
شب دعاؤں میں تر بتر میری
صبح اک خوابِ دل پذیر کے ساتھ
اہلِ دل کیوں نہ مانتے آخر
حرف روشن تھا اس حقیر کے ساتھ
چہرہ ہوا میں اور میری تصویر ہوئے سب
میں لفظ ہوا مجھ میں ہی زنجیر ہوئے سب
بُنیاد بھی میری درو دیوار بھی میرے
تعمیر ہوا میں کہ یہ تعمیر ہوئے سب
بتلاؤ تو یہ آب و ہوا آئی کہاں سے
کہنے کو تو تم لہجہ و تاثیر ہوئے سب
ویسے ہی لکھو گے تو میرا نام ہی ہو گا
جو لفظ لکھے وہ میری جاگیر ہوئے سب
مرتے ہیں مگر موت سے پہلے نہیں مرتے
یہ واقعہ ایسا ہے کہ دلگیر ہوئے سب
وہ رات بے پناہ تھی اور میں غریب تھا
وہ جس نے یہ چراغ جلایا عجیب تھا
وہ روشنی کہ آنکھ اُٹھائی نہیں گئی
کل مجھ سے میرا چاند بہت ہی قریب تھا