وہ مرے خوں سے جو بناتا ہے
سیم و زر، قابلِ معافی ہے؟
Printable View
وہ مرے خوں سے جو بناتا ہے
سیم و زر، قابلِ معافی ہے؟
جنگ میں لوریاں سناتا ہے
نغمہ گر قابلِ معافی ہے؟
سر چڑھاتی ہے اور ظالم کو
چشمِ تر قابلِ معافی ہے
جس کو پندار ہو خدائی کا
وہ بشر قابلِ معافی ہے؟
دے گیا مجھ کو زہرِ کم نظری
چارہ گر قابلِ معافی ہے؟
سنگ زادوں کے شہر میں آسی
شیشہ گر قابلِ معافی ہے؟
بزمِ انجم تھی کہ میرا دیدۂ حیران کل
بھا گیا دل کو مرے سادہ سا اک مہمان کل
میری بچی بھولپن میں بات ایسی کہہ گئی
مجھ کو یاد آئیں بڑی شدت سے اماں جان کل
اس مشینی دور کو پھر بوالبشر اک چاہئے
ہاتھ میں انسان کے جوں ہو گیا انسان کل
آج میرے ایک واقف کار نے مجھ سے کہا
نام تیرا بن نہ جائے جنگ کا اعلان کل
ہے ابھی تو رات کی چھائی ہوئی گھمبیرتا
یہ تو ٹوٹے، دیکھ لیں گے صبحِ چمنستان کل
آس کا دامن نہ چھوڑو یار آسی، دیکھنا
مشکلیں جو آج ہیں ہو جائیں گی آسان کل
ہجومِ غم سے مسرت کشید کرتے ہیں
کہ ہم تو زہر سے امرت کشید کرتے ہیں
انہوں نے پال رکھے ہیں زمانے بھر کے غم
مرے لہو سے جو عشرت کشید کرتے ہیں
ہماری فکر ابھی قید ہے ظواہر میں
ہم اپنے کام سے شہرت کشید کرتے ہیں
صدائیں ہم نے سنی ہیں جو شہر میں ان سے
اک ایک لفظ بغاوت کشید کرتے ہیں
میں ان کو دیکھ کے حیرت میں غرق ہوں آسی
وہ میرے حال سے عبرت کشید کرتے ہیں
گیا وہ شخص تو عزمِ جوان چھوڑ گیا
کہ راستے میں لہو کے نشان چھوڑ گیا
مرے جنوں کو گوارا نہ تھا ٹھہر جانا
اسی لئے میں ترا آستان چھوڑ گیا
کمال ہے کہ وہی لوگ میرے دشمن تھے
میں جن کے واسطے اپنا جہان چھوڑ گیا
مرا خلوص مرے یار، اک حقیقت ہے
تو اپنے آپ سے تھا بد گمان چھوڑ گیا
نوید گرچہ نئے دن کی دے گیا سورج
طویل رات مگر درمیان چھوڑ گیا
یہ اور بات مسائل میں گھِر گیا آسی
انا پرست، ترا آستان چھوڑ گیا
ہمارے ہاتھوں میں آ گئے ہیں اگرچہ تیشے
کسے کہیں اب تلاش کر لائے ہمتوں کو
اصول ہم نے بنا لیا ہے ضرورتوں کو
بھلائے بیٹھے ہیں اور ساری حقیقتوں کو
چھپائے پھرتے ہیں آپ لوگوں سے اپنے چہرے
جو آزمانے چلے تھے میری محبتوں کو
مجھے زمانے نے اور بھی غم عطا کئے ہیں
میں دل میں کب تک بسا رکھوں محض نفرتوں کو
چہار سو مکر و فن کی دنیا سجائی میں نے
میں طاقِ نسیاں میں رکھ چکا ہوں صداقتوں کو
قضا کی گھنٹی تو ایک مدت سے بج رہی ہے
جگائے کون اِن جدار جیسی سماعتوں کو
ابھی تو آسی کے ہاتھ پتوار پر جمے ہیں
ابھی تو بڑھنا ہے اور طوفاں کی شدتوں کو
راستوں کو آزمانا چاہئے
حوصلوں کو آزمانا چاہئے
’آ رہی ہے چاہِ یوسف سے صدا‘
بھائیوں کو آزمانا چاہئے
چند گھاؤ اور بڑھ جائیں تو کیا!
بیڑیوں کو آزمانا چاہئے
شہر پر پھر چھا رہی ہے تیرگی
جگنوؤں کو آزمانا چاہئے
بالارادہ بھول کر رستہ کبھی
رہبروں کو آزمانا چاہئے
تم کو آسی جی اب اپنی سوچ کے
برزخوں کو آزمانا چاہئے
جب ذہنوں میں خوف کی ٹیسیں اٹھتی ہیں
دب جاتی ہیں جتنی سوچیں اٹھتی ہیں
سر تو سارے خم ہیں بارِ غلامی سے
ایوانوں میں صرف کلاہیں اٹھتی ہیں
الفت میں رخنے بھی اتنے پڑتے ہیں
جتنی اوپر کو دیواریں اٹھتی ہیں
حد نظر تک کوئی سفینہ بھی تو نہیں
کس کے لئے یہ سرکش موجیں اٹھتی ہیں