مجھ پہ طاری ہے رہ ِ عشق کی آسودہ تھکن
تجھ پہ کیا گزری مرے چاند بتا کیوں چپ ہے
Printable View
مجھ پہ طاری ہے رہ ِ عشق کی آسودہ تھکن
تجھ پہ کیا گزری مرے چاند بتا کیوں چپ ہے
جاننے والے تو سب جان گئے ہوں گے علیم
ایک مدت سے ترا ذہن رسا کیوں چپ ہے
ملتا جُلتا تھا حال میر کے ساتھ
میں بھی زندہ رہا ضمیر کے ساتھ
ایک نمرود کی خدائی میں
زندگی تھی عجب فقیر کے ساتھ
آنکھ مظلوم کی خدا کی طرف
ظلم اک ظلمتِ کثیر کے ساتھ
جرم ہے اب مری محبت بھی
اپنے اس قادر و قدیر کے ساتھ
اس نے تنہا کبھی نہیں چھوڑا
وہ بھی زنداں میں ہے اسیر کے ساتھ
کس میں طاقت وفا کرے ایسی
اپنے بھیجے ہوئے سفیر کے ساتھ
سلسلہ وار ہے وہی چہرہ
عالم اصغر و کبیر کے ساتھ
آنے والا ہے اب حساب کا دن
ہونے والا ہے کچھ شریر کے ساتھ