کھینچ کر تلوار قاتل نے کیا مجھ کو نہ قتل
شکر ہے گردن تک آتے آتے احساں رہ گیا
Printable View
کھینچ کر تلوار قاتل نے کیا مجھ کو نہ قتل
شکر ہے گردن تک آتے آتے احساں رہ گیا
شامِ ہجراں صبح بھی کر کے نہ دیکھا روزِ وصل
سانپ کو کچلا پر آتش ، گنج پنہاں رہ گیا
ہے جب سے دستِ یار میں ساغر شراب کا
کوڑی کا ہو گیا ہے کٹورا گلاب کا
صیاد نے تسلیِ بلبل کے واسطے
کنجِ قفس میں حوض بھرا ہے، گلاب کا
دریائے خوں کیا ہے تری تیغ نے رواں
حاصل ہوا ہے رتبہ سروں کو، حباب کا
جو سطر ہے، وہ گیسوئے حورِ بہشت ہے
خالِ پری ہے نقطہ، ہماری کتاب کا
نور آسماں ہیں صفحۂ اوّل کے نو لغت
کونین، اک دو ورقہ ہے اپنی کتاب کا
اے موجِ بے لحاظ، سمجھ کر مٹائیو
دریا بھی ہے اسیرِ طلسمِ حباب کا
اک ترک شہسوار کی دیوانی روح ہے
زنجیر میں ہمارے ہو لوہا رکاب کا
حسن و جمال سے ہے زمانے میں روشنی
شب ماہتاب کی ہے، تو روز آفتاب کا
اللہ رے ہمارا تکلّف، شبِ وصال
روغن کے بدلے عطر جلایا گلاب کا
مسجد سے مے کدے میں مجھے نشّہ لے گیا
موجِ شرابِ جادہ تھی، راہِ ثواب کا
انصاف سے وہ زمزمہ میرا اگر سنے
دم بند ہووے طوطیِ حاضر جواب کا
الفت جو زلف سے ہے دلِ داغ دار کو
طاؤس کو یہ عشق نہ ہو گا سحاب کا
معمور جو ہوا عرقِ رخ سے وہ ذقن
مضمون مل گیا مجھے چاہِ گلاب کا
آتش شبِ فراق میں پوچھوں گا ماہ سے
یہ داغ ہے دیا ہوا کس آفتاب کا؟
سُن تو سہی جہاں میں ہے تیرا فسانہ کیا
کہتی ہے تجھ کو خلقِ خدا غائبانہ کیا
پاتا ہوں ناف کا کمرِ یار میں مقام
چشمہ مگر عدم میں ہے گوہر کی آب کا
کیا کیا اُلجھتا ہے تری زلفوں کے تار سے
بخیہ طلب ہے سینۂ صد چاک شانہ کیا؟
زیرِ زمین سے آتا ہے جو گل سو زر بکف
قاروں نے راستے میں خزانہ لٹایا کیا؟
چاروں طرف سے صورتِ جاناں ہو جلوہ گر
دل صاف ہو ترا تو ہے آئینہ خانہ کیا
طبل و عَلم ہے پاس نہ اپنے ہے ملک و مال
ہم سے خلاف ہو کے کرے گا زمانہ کیا
صّیاد گُل عذار دکھاتا ہے سیرِ باغ
بلبل قفس میں یاد کرے آشیانہ کیا
یوں مدّعی حسد سے نہ دے داد تو نہ دے
آتِش غزل یہ تو نے کہی عاشقانہ کیا
یار کو میں نے مجھے یار نے سونے نہ دیا
رات بھر طالعِ بیدار نے سونے نہ دیا
خاک پر سنگِ درِ یار نے سونے نہ دیا
دھوپ میں سایۂ دیوار نے سونے نہ دیا
شام سے وصل کی شب آنکھ نہ جھپکی تا صبح
شادیِ دولتِ دیدار نے سونے نہ دیا
جب لگی آنکھ ، کراہا یہ کہ بد خواب کیا
نیند بھر کر دلِ بیمار نے سونے نہ دیا
دردِ سرِ شام سے اس زلف کے سودے میں رہا
صبح تک مجھ کو شبِ تار نے سونے نہ دیا
رات بھر کیں دلِ بے تاب نے باتیں مجھ سے
رنج و محنت کے گرفتار نے سونے نہ دیا
سیلِ گریہ سے مرے نیند اڑی مردم کی
فکرِ بام و در و دیوار نے سونے نہ دیا
ایک شب بلبلِ بے تاب کے جاگے نہ نصیب
پہلوئے گُل میں کبھی خار نے سونے نہ دیا
سچ ہے غم خواریِ بیمار عذابِ جاں ہے
تا دمِ مرگ دلِ زار نے سونے نہ دیا
یہ آرزو تھی تجھے گُل کے رُو برُو کرتے
ہم اور بلبلِ بے تاب گفتگو کرتے
تکیہ تک پہلو میں اس گُل نے نہ رکھا آتش
غیر کو ساتھ کبھی یار نے سونے نہ دیا
باغِ عالم میں رہیں خواب کی مشتاق آنکھیں
گرمیِ آتشِ گلزار نے سونے نہ دیا
پیام بر نہ میّسر ہوا تو خوب ہوا
زبانِ غیر سے کیا شرحِ آرزو کرتے
مری طرح سے مہ و مہر بھی ہیں آوارہ
کسی حبیب کی یہ بھی ہیں جستجو کرتے
ہمیشہ رنگ زمانہ بدلتا رہتا ہے
سفید رنگ ہیں آخر سیاہ مُو کرتے
لٹاتے دولتِ دنیا کو میکدے میں ہم
طلائی ساغر مئے نقرئی سبُو کرتے