دن تو اپنا ایسے تیسے بِیت ہی جاتا ہے لیکن
رات کو لگتا ہے ڈر، اس شہر کی آب و ہوا سے
Printable View
دن تو اپنا ایسے تیسے بِیت ہی جاتا ہے لیکن
رات کو لگتا ہے ڈر، اس شہر کی آب و ہوا سے
عقل والوں نے غلامی کی نئی دستاریں پہنیں
ہم بچا لے جائیں سر، اس شہر کی آب و ہوا سے
خونِ تازہ بن کے دوڑوں گا بہاروں کی رگوں میں
خاک بھی ہو جاؤں گر، اس شہر کی آب و ہوا سے
پھر ثمود و عاد کا سا دَور جیسے آ گیا ہو
دوڑ کر آسی گزر، اس شہر کی آب و ہوا سے
آؤ کچھ ذکرِ روزگار کریں
دورِ حاضر کے غم شمار کریں
اور بھی بوجھ ہیں اسی سر پر
آرزوئیں کہاں سوار کریں
آپ نقصان سہہ نہ پائیں گے
آپ دل کا نہ کاروبار کریں
ہم سے تو بے رخی نہیں ہوتی
جو بھی چاہیں، ہمارے یار، کریں
آبلہ پا پیام چھوڑ گئے
لوگ نظارۂ بہار کریں
ہے تقاضائے غیرتِ امروز
زورِ بازو پہ انحصار کریں
کچھ تو فرمائیے کہ آسی جی
کیا کریں، کس پہ اعتبار کریں
کتنی لمبی ہیں راتیں
ایسی ہوتی ہیں راتیں
جب سے کوئی بِچھڑا ہے
جیسے ڈستی ہیں راتیں
کیسے کیسے اَن ہونے
خواب دکھاتی ہیں راتیں
سورج دن کو ہوتا ہے
اَور جھلستی ہیں راتیں
پورا ہے گو چاند مگر
کالی کالی ہیں راتیں
کیسے کیسے کس کس کے
عیب چھپاتی ہیں راتیں
شمس و قمر کی اَور اپنی
یکساں گزری ہیں راتیں
جھوٹ افق نے بولا ہے
جانے والی ہیں راتیں؟
دن کی بات کرو یارو
سہمی سہمی ہیں راتیں
آسی اور کہے بھی کیا
کٹتی جاتی ہیں راتیں
ہم رہیں برسرِپیکار، ضروری تو نہیں
اپنا تماشا کریں اغیار، ضروری تو نہیں
گر مرے ساتھ چلیں تو بھی عنایت ہو گی
آپ کا ساتھ بھی، سرکار! ضروری تو نہیں
آپ کے طرزِ تکلم سے عیاں ہے سب کچھ
صاف لفظوں میں ہو اظہار، ضروری تو نہیں
آج ہم خود بھی شہادت پہ تلے بیٹھے ہیں
آپ کے ہاتھ میں تلوار ضروری تو نہیں
نقدِ جاں لے کے درِ یار پہ جانا ہو گا!
حسن پہنچے سرِ بازار، ضروری تو نہیں
دن چڑھے گا تو امیدوں کی ضیا دیکھیں گے
ہر مگر، سر بھی شبِ تار، ضروری تو نہیں
وہ تو اک عام سا شاعر ہے تمہارا آسی
اس کا ہر شعر ہو شہکار! ضروری تو نہیں!
سنا ہے رات گہنایا قمر تھا
مگر سویا ہوا سارا نگر تھا
وہ کیا تھا، چیختے تھے سنگ ریزے
ابھی جس شہر میں میرا گزر تھا
مجھے ملنے وہ آئے تھے مرے ہاں
مگر میں سو رہا تھا، بے خبر تھا
یہ کس نے ابر کو آواز دے دی
ابھی تازہ مرا زخمِ جگر تھا
جو تنکے آج بکھرے ہیں گلی میں
کبھی اک چہکتی چڑیا کا گھر تھا
وہ رہتا کس طرح پتھر فضا میں
کہ آسی آئنے جیسا بشر تھا
کبھی دنیا جہاں کے درد اپنانے کو جی چاہا ، سو کر گزرے
کبھی اپنے غموں کے ساتھ بہہ جانے کو جی چاہا، سو کر گزرے
ہمارے دوستوں کو ہم سے یونہی بد گمانی ہے، کہانی ہے
بس اک دن تھا ہمارا ان کو سمجھانے کو جی چاہا، سو کر گزرے
غرورِ پارسائی، حضرتِ ناصح ہمیں بھی تھا، تمہیں بھی تھا
تمہارے شہر میں تم جیسا ہو جانے کو جی چاہا، سو کر گزرے
ہم اپنی بے بسی کا آپ ہی کرتے رہے چرچا، ہوئے تنہا
گناہِ نا گرفتہ کی سزا پانے کو جی چاہا، سو کر گزرے
ہزاروں بار حرفِ مدعا لے کر گئے بھی ہم، مگر پیہم
حضورِ شہ سے خالی ہاتھ لوٹ آنے کو جی چاہا، سو کر گزرے
تیرا سر قابلِ معافی ہے؟
بات کر، قابلِ معافی ہے؟