اس سے کہنے کو گئے تھے کہ محبت ہے بہت
اس کو دیکھا تو شکستہ دل و محجوب آئے
Printable View
اس سے کہنے کو گئے تھے کہ محبت ہے بہت
اس کو دیکھا تو شکستہ دل و محجوب آئے
آگے کیا ہو یہ سخن آج تو یوں ہے جیسے
اپنے نام اپنا ہی لکھا ہوا مکتوب آئے
ایک دربار کی تصویر میں کچھ اہل قلم
وقت کی آنکھ نے دیکھا کے بہت خوب آئے
دکھ سے پھر جاگ اٹھی آنکھ ستارے کی طرح
اور سب خواب ترے نام سے منسوب آئے
ہم نے دل نذر کیا اہل محبت کے حضور
ان نے قامت یہ بڑھایا ہے کے مصلوب آئے
میں تری خاک سے لپٹا ہوا اے عرض وطن
ان ہی عشاق میں شامل ہوں جو معتوب آئے
صاحب مہر وفا ارض و سما کیوں چپ ہیں
ہم پہ تو وقت کے پہرے ہیں خدا کیوں چپ ہیں
بے سبب غم میں سلگنا مری عادت ہی سہی
ساز خاموش ہے کیوں شعلہ نوا کیوں چپ ہے
پھول تو سہم گئے دست کرم سے دمِ صبح
گنگناتی ہوئی آوارہ صبا کیوں چپ ہے
ختم ہو گا نہ کبھی سلسلہ اہل وفا
سوچ اسے داورِ مقتل یہ فضا کیوں چپ ہے