شب برات جو زلف سیاہ یار ہوئی
جبیں سے صبح مہ عید آشکار ہوئی
Printable View
شب برات جو زلف سیاہ یار ہوئی
جبیں سے صبح مہ عید آشکار ہوئی
پیادہ پا جو چمن میں بہار کو دیکھا
ہوا کے گھوڑے کے اوپر خزاں سوار ہوئی
غزل جو ہم سے وہ محبوب نکتہ دان سنتا
زمینِ شعر کا افسانہ آسماں سنتا
گستاخ بہت شمع سے پروانہ ہوا ہے
موت آئی ہے ، سر چڑھتا ہے ، دیوانہ ہوا ہے
معشوق نہیں کوئی حسیں تم سے زیادہ
مشتاق ہیں کس ماہ کے انجم سے زیادہ
تری زلفوں نے بل کھایا تو ہوتا
ذرا سنبل کو لہرایا تو ہوتا
چاندنی میں جب تجھے یاد اے مہِ تاباں کیا
رات بھر اختر شماری نے مجھے حیراں کیا
پیری نے قد راست کو اپنے نگوں کیا
خراب قصر ِ تن کا ہمارے ستوں کیا
وحشت ِ دل نے کیا ہے وہ بیاباں پیدا
سینکڑوں کوس نہیں صورت ِ انساں پیدا
روز ِ مولود سے، ساتھ اپنے ہوا، غم پیدا
لالہ ساں داغ اٹھانے کو ہوئے ہم پیدا