چاند چہروں کی سادگی پہ نہ جا
تیر کرنوں سے وار کرتے ہیں
Printable View
چاند چہروں کی سادگی پہ نہ جا
تیر کرنوں سے وار کرتے ہیں
بات کرنے کا فائدہ؟ سو، ہم
خامشی اختیار کرتے ہیں
دوستوں سے کبھی ملو آسی
وہ گِلے بے شمار کرتے ہیں
وہ بھی کیسی جفائیں کرتا ہے
ہم پہ قرباں ادائیں کرتا ہے
آدمیت کا دم گھٹے جب بھی
کون جاری ہوائیں کرتا ہے
اس کی رحمت کا آسرا لے کر
آدمی سو خطائیں کرتا ہے
کھینچے پھرتا ہے نیم جاں تن کو
دل بھی کسی جفائیں کرتا ہے
رات بھر لوگ جاگتے بھی ہیں
شہر بھی سائیں سائیں کرتا ہے
صبح دم روز ایک فرزانہ
جاگو، جاگو! صدائیں کرتا ہے
نہ کوئی منزل نہ کوئی راہی، نہ راہبر ہے نہ راستہ ہے
جدھر کو جس جس کے جی میں آئی اسی طرف وہ نکل پڑا ہے
بڑا زمانہ ہوا کسی نے محبتوں کے دئیے جلائے
انھی چراغوں کی روشنی نے بھرم کسی کا رکھا ہوا ہے
ابھی تو شاخوں میں زندگی ہے، ابھی تو پھولوں میں تازگی ہے
مگر خزاں اور بادِ صرصر نے ایک ڈر سا لگا دیا ہے
نہ نقشِ پا ہیں نہ بانگِ چنگ و درا کسی نے سنی ہے لیکن
یہ خاک سی کیسی اڑ رہی ہے کہ راستہ سارا اٹ گیا ہے
اک ایک دانے کو ایک دنیا تڑپ رہی ہے سسک رہی ہے
ادھر خدائی کے دعویداروں نے سارا غلہ جلا دیا ہے
مجھے شرابِ طہور کہہ کر وہ زہرِ قاتل پلا رہے ہیں
میں کیا کہوں کن مروتوں نے مری زباں کو جکڑ لیا ہے
مجھے سخن ور نہ کوئی کہنا کہ میں تو تاریخ لکھ رہا ہوں
نہ یہ غزل ہے نہ شاعری ہے یہ آج کے دن کا ماجرا ہے
مرے رفیقوں کی پھول سی وہ نصیحتیں سب ہیں یاد مجھ کو
مگر یہ میرا قلم ہے آسی، کہ لفظ کانٹے اگا رہا ہے
ربابِ دل کے نغمہ ہائے بوالعجب چلے گئے
جو آ گئے تھے شہر میں، وہ بے ادب چلے گئے
میں اپنی دھن میں گائے جا رہا تھا نغمہ ہائے جاں
مجھے نہیں کوئی خبر کہ لوگ کب چلے گئے
سیاہ رات رہ گئی ہے روشنی کے شہر میں
دکھا کے چاند تارے اپنی تاب و تب چلے گئے
زباں کوئی نہ مل سکی ظہورِ اضطراب کو
تمام لفظ چھوڑ کر لرزتے لب، چلے گئے
وہ خود رہِ وفا میں چند گام بھی نہ چل سکے
ہمیں مگر دکھا کے راستے عجب چلے گئے
وہ کج کلہ جو کبھی سنگ بار گزرا تھا
کل اس گلی سے وہی سوگوار گزرا تھا
کوئی چراغ جلا تھا نہ کوئی در وا تھا
سنا ہے رات گئے شہریار گزرا تھا
گہر جب آنکھ سے ٹپکا زمیں میں جذب ہوا
وہ ایک لمحہ بڑا با وقار گزرا تھا
جو تیرے شہر کو گلگوں بہار بخش گیا
قدم قدم بسرِ نوکِ خار گزرا تھا
وہ جس کے چہرے پہ لپٹا ہوا تبسم تھا
چھپائے حسرتیں دل میں ہزار گزرا تھا
جسے میں اپنی صدا کا جواب سمجھا تھا
وہ اک فقیر تھا، کر کے پکار گزرا تھا
ترے بغیر بڑے بے قرار ہیں، آسی
ترا وجود جنہیں ناگوار گزرا تھا
ہماری یاد بھی آئی تو ہو گی
پھر آنکھوں میں نمی چھائی تو ہو گی
مرا نام آیا ہو گا جب زباں پر
تری آواز بھرّائی تو ہو گی
سرِ رَہ دیکھ کر چھینٹے لہو کے
ہماری یاد بھی آئی تو ہو گی
وہ ملتے ہی نہیں، لیکن یقیناً
وہاں اپنی پذیرائی تو ہو گی
زمانہ ہم کو آخر جان لے گا
نہ ہو گا نام، رسوائی تو ہوگی
میں اپنے دوستوں کو جانتا ہوں
انہوں نے آگ بھڑکائی تو ہو گی
محبت کا ترانہ کوئی چھیڑو
کسی کے پاس شہنائی تو ہو گی
کوئی صحرا سے آسی کو بلا لو
حرارت سے شناسائی تو ہو گی
پنجۂ زغ تیز تر، اس شہر کی آب و ہوا سے
جھڑ گئے چڑیوں کے پر، اس شہر کی آب و ہوا سے
شور مٹی، زہر پانی اور کچھ لُو کے تھپیڑے
جل گئے کتنے شجر، اس شہر کی آب و ہوا سے
توڑ پھینکے پھول بندھن خود پرستی کی ہوا نے
ٹوٹتے جاتے ہیں گھر، اس شہر کی آب و ہوا سے