زندگی کو مری ضرورت تھی
زندگی اب مری ضرورت ہے
Printable View
زندگی کو مری ضرورت تھی
زندگی اب مری ضرورت ہے
لکھنے والے ہی جان سکتے ہیں
لفظ لکھنے میں جو قیامت ہے
تھی کبھی شاعری کمال مرا
شاعری اب مری کرامت ہے
عجیب تھی وہ عجب طرح چاہتا تھا میں
وہ بات کرتی تھی اور خواب دیکھتا تھا میں
وصال کا ہو کہ اس کے فراق کا موسم
وہ لذتیں تھیں کہ اندر سے ٹوٹتا تھا میں
چڑھا ہوا تھا وہ نشہ کے کم نہ ہوتا تھا
ہزار بار ابھرتا تھا ڈوبتا تھا میں
بدن کا کھیل تھیں اس کی محبتیں لیکن
جو بھید جسم کا تھا جاں سے کھولتا تھا میں
پھر اس طرح کبھی سویا نہ اس طرح جاگا
کہ نیند روح میں تھی اور جاگتا تھا میں
کہاں شکست ہوئی اور کہاں صلہ پایا
کسی کا عشق کسی سے نباہتا تھا میں
اب تو یوں خانۂ تنہائی میں محبُوب آئے
جیسے مجذوب کے گھر دوسرا مجذوب آئے