لپک کر لیں جسے پانی کی لہریں
کنارِ آب وہ سروِ رواں ہو
Printable View
لپک کر لیں جسے پانی کی لہریں
کنارِ آب وہ سروِ رواں ہو
تمہارے حق میں کیا جانوں کہوں کیا
سُرورِ چشم ہو تم لطفِ جاں ہو
زباں سے کُچھ سوا لطفِ بدن ہے
سراپا تم حریر و پرنیاں ہو
مہک ہو یا میانِ لب فغاں ہو
کسی پہلو تو ذکرِ گل رُخاں ہو
پتہ دیتا ہے ماجدؔ کو ترا ہی
یہ مرغانِ نفس کا چہچہانا
جو کھنچنا تو رُتوں کو مات کرنا
قریب آنا تو رَگ رَگ میں سمانا
ٹھِٹھکنا قُرب سے فرمائشوں کی
سلیقے بُعد کے ہم کو سکھانا
تمہیں آتا ہے مرغِ آرزُو کے
پروں کو نوچ کر ہر سُو اڑانا
ترستی ہے جسے اپنی سماعت
وُہی اک حرف ہونٹوں پر نہ لانا
وُہی جس کی ہمیں پیہم لپک ہے
وُہی منظر نگاہوں سے چھپانا
مچلنا، مُسکرانا، رُوٹھ جانا
لہومیں اِک تلاطم نِت اُٹھانا
بُہت سینچ بیٹھے ہو ماجدؔ غزل کو نمِ دردِ جاں سے
اگر ہو سکے تو ذرا اِس میں من کے تقاضے بھی لاؤ
بُلاتی ہے خود ابر کو دیکھ لو اپنی جانب یہ کھیتی
تمہارا بدن کہہ رہا ہے ’’لہومیں مرے سر سراؤ‘‘
یہ تنہا روی ترک کر دو کہ اِس میں فقط ٹھوکریں ہیں
مکّرر جسے جسم چاہے کوئی ضرب ایسی بھی کھاؤ
وہی جو گرہ ہے تمہارے مرے عہدِ وابستگی کی
وہ انگشتری بھی کبھی وقت کی انگلیوں میں سجاؤ
تمہیں کتنی حسرت سے کہتی ہے میری یہ تشنہ سماعت
بھنچے ہیں جو لب تو نگاہوں سے ہی کوئی نغمہ سناؤ
ہواؤں میں اپنی مہک کب تلک یوں بکھرنے نہ دو گے
حجاب اِس طرح کے ہیں جتنے بھی وہ درمیاں سے اُٹھاؤ
لبوں کے اُفق پر دمکتا ہُوا کوئی سورج اُگاؤ
رگوں میں مچلتی تمازت کبھی تو زباں پر بھی لاؤ
میرے جذبات کہ رقصاں ہیں بہ چشم و لب و دل
دیکھ یہ مور بھی لیتے ہیں بلائیں تیری
تیرے پیکر کا گماں یُوں ہے فضا پر جیسے
پالکی تھام کے پھرتی ہوں ہوائیں تیری
لے کے پھرتی ہیں رُتیں شوخ ادائیں تیری
پھُول کھِل کھِل کے مجھے یاد دلائیں تیری
اشک دے گا پتہ ضرور اپنا
خاک میں یہ نمی سمانے دو
یہ اعادہ ہی بچپنے کا سہی
کُچھ گھروندے مگر بنانے دو
جن پہ سُورج کبھی نہیں اُبھرا
وُہ اُفق اب کے جگمگانے دو
سیج پر شاخِ آرزُو سے گری
پتّیاں تُم مجھے بچھانے دو
پھینک کر اب کے آخری پتّا
کھیل کو رُخ نیا دلانے دو
گُنگ جذبوں کو چہچہانے دو
لفظ مُنہ پر کوئی تو آنے دو
کرتا ہے کیوں سخن میں عبث نقش کاریاں
ماجدؔ صلہ بھی کوئی تُجھے کچھ ملے گا کیا
یہ لطفِ دید، یہ ترا پیکر الاؤ سا
منظر نگاہ پر کوئی ایسا کھُلے گا کیا
خواہش کا چاند آ ہی گیا جب سرِ اُفق
باقی کوئی حجاب بھلا اب رہے گا کیا
یہ ولولہ مرا کہ ضیا بار تُجھ پہ ہَے
سُورج ہے گر تو میرے اُفق سے ڈھلے گا کیا
خاموش کیوں ہے دے بھی مُجھے اِذنِ سوختن
شُعلہ نظر سے اور بھی کوئی اُٹھے گا کیا
گھِر کر بہ سحرِ قُرب بھلا اب کھنچے گا کیا
پگھلے بدن کے ساتھ مجھے تُو کہے گا کیا
پھُول کھِلتے سرِ فضا ماجدؔ
ہونٹ بہرِ سخن جو وار کرتے
بہر تسکینِ دیدہ و دل و جاں
رسمِ ناگفتنی ادا کرتے
جگنوؤں سا بہ سطحِ یاد کبھی
ٹمٹماتے، جلا بُجھا کرتے
ہم پئے لُطف چھیڑ کر تُجھ کو
جو نہ سُننا تھا وُہ سُنا کرتے
سج کے اک دُوسرے کے ہونٹوں پر
ہم بھی غنچہ صفت کھِلا کرتے
مانگتے گر کبھی خُدا سے تمہیں
لُطف آتا ہمیں دُعا کرتے
کھُل کے اظہارِ مدّعا کرتے
یوں بھی ہم تُم کبھی مِلا کرتے