نیچے سے زمیں نِکل گئی ہے
اُوپر سے زماں بدل گیا ہے
Printable View
نیچے سے زمیں نِکل گئی ہے
اُوپر سے زماں بدل گیا ہے
کِس خلوتِ خاص میں گیا وہ
کپڑے بھی یہاں بدل گیا ہے
اور سب زندگی پہ تہمت ہے
زندگی آپ اپنی لذت ہے
میرے اور میرے اس خدا کے بیچ
ہے اگر لفظ تو 'محبت' ہے
اک سوال اور اک سوال کے بعد
انتہا حیرتوں کی حیرت ہے
عہد شیطان کا خدا کے ساتھ
سرکشی ہے مگر عبادت ہے
بھید جانے کوئی مگر کیسے
یار کو یار سے جو نسبت ہے
خواب میں ایک شکل تھی میرے
تُو تو اُس سے بھی خوبصورت ہے
پہلے مجھ کو تھی اور اب تیری
میری تنہائی کو ضرورت ہے
گھٹتا بڑھتا رہا مرا سایہ
ساتھ چلنے میں کتنی زحمت ہے