آج تک قائم ہے اس کے لوٹ آنے کی امید
آج تک ٹھہری ہے زندگی اپنی جگہ
لاکھ چاہا اسے بھول جائوں فراز
مگر حوصلے اپنن جگہ بے بسی اپنی جگہ
Printable View
آج تک قائم ہے اس کے لوٹ آنے کی امید
آج تک ٹھہری ہے زندگی اپنی جگہ
لاکھ چاہا اسے بھول جائوں فراز
مگر حوصلے اپنن جگہ بے بسی اپنی جگہ
سلوٹیں ہیں میرے چہرے پر تو حیرت کیوں ہے
زندگی نے مجھے کچھ تم سے ذیادہ پہنا۔۔۔۔۔۔
جس کو بھی دیکھا اسے روتے ہوئے پایا ہے محسن!
یہ محبت تو کسی فقیر کی بددعا لگتی ہے
چراغ بن کے جلا جن کے واسطے اک عمر
چلا گیا وہ ہوا کے سپرد کر کے مجھے
میں اپنی ذات میں نیلام ہو رہا ہوں قتیل
غم حیات سے کہہ دو خرید لے مجھے
ہے تمہارے لئے کچھ ایسی عقیدت دل میں
اپنے ہاتھوں میں دعاؤں سا اٹھا لیں تم کو
جان دینے کی اجازت بھی نہیں دیتے ہو
ورنہ مر جائیں ابھی مر کے منا لیں تم کو
اپنے مسیحا سے اب کوئی امید نہ رکھ ساغر
وہ تنگ دل ہے اور تیرے زخم کی گہرائی بہت
سحر ہوئی تو لائی اسی چراغ کی موت
عمر بھر سسکتا رہا جو سحر کے لئے
اک یہی آس ہی کافی ہے مرے جینے میں
دل نہیں آپ دھڑکتے ہیں مرے سینے میں
تجھ سے گھاؤ ملے دل سے لگا لیتے ہیں
کتنی لذت ہے تری ذات کے غم پینے میں
سمندر میں* فنا ہونا تو قسمت کی کہانی ہے فراز
جو مرتے ہیں کنارے پر مجھے افسوس ان پر ہوتا ہے
ye zra zra si bat py tarah tarah ka azab kyn......????
jo kisi sy b khafa na ho mjy us khuda ki talash hai...